واشنگٹن:(اے یو ایس ) ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ایرانی وزیر خارجہ محمد جواد ظریف کی اِفشا ہونے والی آڈیو ریکارڈنگ کا پہلا شکار امریکی صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ میں ماحولیات کے سفیر جان کیری ہیں۔ ظریف کے دعوے کے مطابق جان کیری نے تہران کو شام میں ایران کے خلاف اسرائیل کی 200 سے زیادہ کارروائیوں کے بارے میں خفیہ معلومات بہم پہنچائی تھیں۔ماحولیاتی تبدیلی کے خصوصی امریکی ایلچی جان کیری نے اس دعوے کی تردید کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ صدر باراک اوباما کے دور میں انہوں نے ایرانی وزیر خارجہ کے ساتھ اسرائیلی فوجی کارروائیوں کے حوالے سے بات چیت کی تھی۔
کیری نے ایرانی وزیر خارجہ کے دعوے کو “واضح جھوٹ” قرار دیا۔جان کیری نے پیر کی شب ٹویٹر پر لکھا کہ “خواہ جب میں وزیر خارجہ تھا یا پھر اس کے بعد سے اب تک ،،، ایسا قطعا نہیں ہوا”۔متعدد ریپلکن ارکان نے مطالبہ کیا ہے کہ جان کیری کو بائیڈن انتظامیہ میں اپنے موجودہ منصب سے فوری طور پر مستعفی ہو جانا چاہیے۔سینیٹر ڈان سولیون نے پیر کے روز اپنے خطاب میں کہا کہ کیری کے “کوچ کی ضرورت ہے”۔ادھر سینیٹر ٹیڈ کروز نے ایک بیان میں کہا ہے کہ “لوگن قانون کے باوجود جان کیری کو ٹرمپ انتظامیہ کے دور میں ظریف کے ساتھ ملاقات کرتے ہوئے پکڑا گیا تاہم کیری نے کبھی اس بات کا انکشاف نہیں کیا کہ دونوں شخصیات کے درمیان کون سا موضوع زیر بحث آیا”۔دوسری جانب ریپبلکن سینیٹر اور انٹیلی جنس کمیٹی کے رکن ٹام کوٹن کا کہنا ہے کہ “یہ رپورٹیں تشویش کا باعث ہیں ، میں چاہتا ہوں کہ مجھے بند کمرے کے اجلاس میں جان کیری سے سوال کا موقع ملے”۔سابق وزیر خارجہ مائیک پومپیو اور کانگریس میں خارجہ پالیسی کی ریپبلکن قیادت نے اس حوالے سے جان کیری کے ساتھ سرکاری طور پر تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔
پومپیو کا کہنا ہے کہ مذکورہ آڈیو ٹیپ نے اس بات کو ثابت کر دیا ہے جو میں کئی برس سے کہہ رہا تھا کہ ” ظریف نے سابق وزیر خارجہ کیری کی خدمات اختتام پذیر ہونے کے بعد سیاسی مسائل کے حوالے سے کیری کے ساتھ تعامل جاری رکھا۔ ظریف کے مطابق کیری نے ایرانیوں کو اسرائیلی کارروائیوں کے بارے میں آگاہ کیا”۔ادھر ریپبلکن رکن کانگریس اور ایوان نمائندگان میں مسلح افواج کی کمیٹی کے رکن جم بینکس نے واشنگٹن فری بیکن اخبار سے گفتگو میں کہا کہ “جان کیری کو فوری طور پر مستعفی ہو جانا چاہیے۔ ہمیں کیری کے دوغلے پن کی حد جاننے کی ضرورت ہے۔ ساتھ یہ بھی جاننا چاہیے کہ آیا بائیڈن اور اوباما انتظامیہ میں دیگر ارکان نے بھی رازداری کے ساتھ ایران کو خفیہ معلومات میں شریک کیا۔ ان فوری سوالات کا تعلق قومی سلامتی سے ہے”۔
ایوان نمائندگان میں خارجہ امور کی کمیٹی کے رکن ڈیریل ایس کے مطابق “اگرچہ ہمارے لیے ممکن نہیں کہ ایرانی وزیر خارجہ سے سنی گئی (یا نیویارک ٹائمز میں پڑھی گئی) باتوں کو حقیقت جان کر آسانی سے قبول کر لیں تاہم یہ رپورٹیں فوری اور مکمل تحقیقات کا تقاضا کرتی ہیں .. اگر جان کیری نے ایران کو سیکورٹی انٹیلی جنس معلومات میں شریک کیا ہے اور اسرائیل کو کسی بھی صورت خطرے میں ڈالا ہے تو میں وعدہ کرتا ہوں کہ کیری کا احتساب ہو گا”۔ادھر امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے اس معاملے کی اہمیت کو کم کرنے کی کوشش کی ہے۔ پیر کی دوپہر جب صحافیوں نے ترجمان پر دباو¿ ڈالا تو ان کا کہنا تھا کہ “وہ اِفشا ہونے والی آڈیو ریکارڈنگ کے بارے میں ہر گز بات نہیں کریں گے۔