کابل: (اے یو ایس ) افغانستان میں طالبان کے اقتدار کو لگ بھگ ایک سال ہو گیا ہے۔ اس ایک برس میں طالبان کو مختلف چیلنجز کا سامنا رہا ہے۔ البتہ یہ ایک سال گزرنے پر ملک میں اصلاحات کے معاملے پر طالبان قیادت کے درمیان اختلافات بھی سامنے آرہے ہیں۔ 1996 سے 2001 تک اپنے پہلے دورِ حکومت میں اپنے شدت پسندانہ اقدامات کی وجہ سے بدنام اس گروپ نے بظاہر اس بار مختلف انداز میں حکومت کرنے کا عزم کیا اور جدید دور کے تقاضوں کے مطابق کچھ اقدامات بھی اٹھائے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق افغانستان کے دارالحکومت کابل میں حکام نے ٹیکنالوجی کو قبول کرلیا ہے جب کہ اسٹیڈیمزکرکٹ میچز کے دوران تماشائیوں سے بھرے ہوئے ہوتے ہیں۔طالبان کے پہلے دورِ حکومت میں ٹیلی ویژن پر پابندی تھی مگر اب افغان شہریوں کو انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا تک رسائی حاصل ہے۔لڑکیوں کو پرائمری اسکول جانے کی اجازت ہے جب کہ خواتین حکومت میں شامل افراد کے انٹرویوز کر رہی ہیں، 90کے عشرے میں طالبان کے پہلے دور میں یہ سب ناقابل تصور تھا۔خفیہ اسکول گھروں میں بنائے گئے ہیں جہاں بعض لڑکیاں تعلیم حاصل کر رہی ہیں۔ماہرین کے مطابق طالبان کے حلقوں میں ایک سخت گیر مو قف رکھنے والا دھڑا بھی موجود ہے، جو کسی بھی اہم نظریاتی تبدیلی کے خلاف ہے اور اسے مغرب کے سامنے سرِ تسلیم خم کرنے کے مترادف قرار دیتا ہے۔
انٹرنیشنل کرائسز گروپ کے افغانستان کے تجزیہ کار ابراہیم باہیس کہتے ہیں کہ آپ کے پاس ایک (طالبان) کیمپ ہے جو اس کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں جسے وہ اصلاحات کے طور پر دیکھتے ہیں جب کہ ایک دوسرا کیمپ ہے جسے ایسا لگتا ہے کہ یہ معمولی اصلاحات بھی بہت زیادہ ہیں۔ خیال رہے کہ افغانستان میں طالبان حکومت کے آنے کے بعد امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے ملک کو عالمی بینک کاری نظام سے الگ کر دیا ہے جب کہ ملک کے بیرونِ ملک اربوں ڈالرز کے اثاثے بھی منجمد ہیں۔ طالبان ان اثاثوں کی فوری بحالی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔اس معاملے میں کوئی اہم پیش رفت نہ ہونے کے باعث افغان عوام ایک بدترین معاشی بحران کا شکار ہیں اور یہ دیکھا گیا ہے کہ کچھ خاندان اپنے اعضا یا نوزائیدہ بچیوں تک کو فروخت کرنے پر مجبور ہو رہے ہیں۔