لندن: اسکائی نیوز اور بی بی سی ٹیلی ویژن کے مطابق برطانیہ کے وزیر اعظم بورس جانسن کی کنزرویٹیو پارٹی نے جمعرات کو ہو نے والے پارلیمانی انتخابات میں واضح اکثریت حاصل کر لی۔ پانچ سال کی مدت کے دوران ہونے والے اس تیسرے انتخابات کے نتائج نے یہ واضح کر دیا ہے کہ اب 31جنوری 2020تک برطانیہ بریگزیٹ سے باہر ہو جائے گا کیونکہ ان عام انتخابات میں کنزرویٹو پارٹی کے سربراہ جانسن نے بریگزٹ کو اپنی انتخابی مہم کا مرکز و محور قرار دیتے ہوئے اعلان کیا تھا کہ اگر ان کی پارٹی اور سنہ 2019 کے عام انتخابات میں ایک اور موقع دیا گیا تو وہ 31 جنوری 2020 تک برطانیہ کو یورپی یونین سے باہر نکال لیں گے۔اب تک جو نتائج سامنے آئے ہیں اس سے کنزر ویٹیو پارٹی واضح اکثریت کی جانب بڑھتی نظر آرہی ہے۔ اور حتمی نتائج آنے سے پہلے ہی وہ 650میں سے 326سیٹوں پر قابض ہوچکی ہے جو حکومت سازی کے لیے کافی ہیں۔جبکہ مزید جیتنے کی توقع ہے کیونکہ ایکزٹ پول میں اسے368سیٹیں جیتتے دکھایا گیا ہے۔ برطانیہ میں ایکزٹ پول اس لیے درست تسلیم کیا جاتا ہے کیونکہ ان کے یہاں عام طور سے یہ طریقہ رائج ہے کہ ووٹ ڈال کر بوتھ سے باہر نکلنے والے ہر ووٹر کو ایک ڈمی بیلٹ پیپر دیا جاتا ہے کہ اس نے جیسے اندر ووٹنگ کی ہے اس نقلی بیلٹ پیپر پر بھی کر دے ۔تاکہ قیاس لگایا جا سکے کہ پارلیمانی انتخابات کے نتائج کس قسم کے برآمد ہوں گے۔جانسن کے لیے، جن کی 20ہفتہ کا دور وزارت عظمیٰ یورپی یونین سے برطانیہ کے انخلا پرپارلیمنٹ سے سڑک تک ہنگاموں اور مظاہروں کے باعث بڑا پر آشوب رہا ،جمعرات کے انتخابات ان کے موقف کی تائید ہیں۔یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ برطانیہ میں کم و بیش ایک صدی بعد کرسمس کے موقع پر پہلی بار عام انتخابات ہوئے ہیں۔ آخری بار ماہ دسمبر میں انتخابات1923میں ہوئے تھے۔اصل حزب اختلاف لیبر پارٹی کے سربراہ جرمی کوبین نے اس شکست کے بعد کہا کہ یہ شب ان کے لیے مایوسیوں کی ایسی سوغات لائی ہے کہ انہوں نے اب تہیہ کر لیا ہے کہ آئندہ انتخابی مہم میں وہ پارٹی کی قیادت نہیں کریں گے۔تاہم 70سالہ کوربین اپنی شمالی لندن کی سیٹ دسویں بار بھی جیتنے میں کامیاب رہے۔