کابل: (اے یو ایس )افغانستان کے سابق صدر اشرف غنی کے بھائی حشمت غنی نے کہا ہے کہ افغانستان میں طالبان قیادت اور نچلی سطح کے کمانڈروں کے درمیان عسکری سلسلہ کا فقدان ہے۔وائس آف امریکہ کو دیے گئے ایک خصوصی انٹرویو میں حشمت غنی نے مزید کہا کہ حالیہ دنوں میں طالبان کے کچھ اہلکاروں نے جلال آباد میں واقع ان کی جائیداد کو خالی کرنے کہاجو طالبان کے بیانیے کے یکسر خلاف ہے۔کیوں کہ ان کے بقول طالبان کا بیانیہ افغانستان بھر میں ہر کسی کی جان و مال اور جائیدادوں کے تقدس کے احترام پر مبنی ہے۔انہوں نے اشرف غنی کے آخری دنوں کی صدارت کا حال بتاتے ہوئے کہا کہ دفترمیں ان کے تمام امور امریکی اور این ڈی ایس کے حکم پر ہوتے تھے۔وہ اپنے بھائی اشرف غنی کے کابل کو چھوڑنے کے فیصلے کی حمایت کرتے ہیں کہ اگر وہ خود کو اقتدار سے الگ نہ کرتے تو خون خرابے کے خطرے کے ساتھ ساتھ ان کی جان کو بھی خطرہ تھا اور افغانستان ایک اور لیڈر کی اس طرح کی بھیانک موت کا متحمل نہیں ہو سکتا تھا۔
اسی لیے انہوں نے راہ فراراختیارکرنے کو ترجیح دی۔حشمت غنی کہتے ہیں کہ ان کے بھائی 18 ماہ عالمی برادری کو دوحہ امن معاہدے میں پائی جانے والی خامیوں سے آگاہ کرتے رہے اور یہی وجہ ہے کہ طالبان کو اقتدار سنبھالے ایک سال مکمل ہونے کو ہے لیکن افغانستان بے یقینی کا شکار ہے اور ملک کا پوری دنیا سے رابطہ منقطع ہے۔خیال رہے کہ افغانستان میں طالبان کو اقتدار سنبھالے ایک سال مکمل ہونے کو ہے۔ تاہم ابھی تک کسی بھی ملک نے طالبان کی حکومت کو باضابطہ طور پر تسلیم نہیں کیا ہے۔ ملک میں اس وقت بیروزگاری عروج پر ہے جب کہ معاشی عدم استحکام میں بھی اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔ماہرین یہ خدشہ ظاہر کر رہے ہیں کہ اگر افغانستان کے حالات اسی سمت بڑھتے رہے تو ملک ایک بار پھر خانہ جنگی کا شکار ہوسکتا ہے۔کابل پر افغانستان کے کنٹرول سے متعلق سوال پر حشمت غنی کا کہنا تھا یہ ان کے لیے حیران کن نہیں تھا کیوں کہ اس کا آغاز 18 ماہ قبل دوحہ امن معاہدے سے ہوگیا تھا۔حشمت غنی جو خود ایک قبائلی رہنما ہونے کے ساتھ سیاسی رہنما اور تاجر بھی ہیں۔ وہ طالبان کے کنٹرول کے بعد چار ماہ تک کابل میں ہی رہے اور اب وہ وقتاًفوقتاًکابل جاتے رہتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ انہوں نے متعدد مرتبہ طالبان قیادت پر ملک کے معاملات افہام و تفہیم سے چلانے پر زور دیا ہے لیکن تاحال کوئی مثبت نتائج برآمد نہیں ہوئے ہیں۔دوسری جانب مبصرین کا خیال ہے کہ طالبان حکومت کو عالمی سطح پر تسلیم ہونے میں ابھی خاصا وقت درکار ہے کیوں کہ طالبان قیادت لچک کا مظاہرہ کرنے میں دلچسپی نہیں دکھا رہی ہے۔افغان امور کے ماہر اور سینئر تجزیہ کار رامش سالمی کہتے ہیں کہ دوحہ امن معاہدے کی بنیاد پر افغانستان میں وسیع البنیاد حکومت کی تشکیل نو کی بات کی گئی تھی۔ لیکن طالبان نے اشرف غنی کی حکومت کو طاقت کے بل بوتے پر گرا کر خود اقتدار پر قبضہ کیا۔وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے رامش سالمی نے کہا کہ طالبان نے خواتین کے حقوق خصوصا ً تعلیم اور روزگار پر پابندی لگا کرمغرب کو چیلنج کیا جس کے باعث طالبان کی شناخت کا مسئلہ مزید پیچیدہ ہو گیا اورتاحال کوئی بھی ملک طالبان کی حکومت کو تسلیم کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتا۔ادھر حشمت غنی کہتے ہیں کہ ملک میں بینکنگ کا نظام معطل ہے، تعلیمی مراکز بند ہیں۔ انسانی حقوق کے واقعات میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے جب کہ خواتین کی آزادی اور روزگار کے حصول پر پابندی عائد ہے۔
