اسلام آباد: (اے یو ایس ) اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ کے چیمبر پر وکلا کے ایک گروپ کی طرف سے ’حملے‘ اور ’توڑ پھوڑ‘ کے واقعے کے خلاف 9 فروری کو اسلام آباد ہائی کورٹ اور وفاقی دارالحکومت کی ماتحت عدالتوں کو بند رکھنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ یہ بات اسلام آباد ہائی کورٹ کے رجسٹرار نے صحافیوں کو بتائی ہے۔اسلام آباد ہائی کورٹ کے ترجمان کی طرف سے جاری ہونے والی پریس ریلیز کے مطابق اس واقعے کی ایف آئی آر درج ہو چکی ہے اور پولیس نے نامزد وکلا کی تلاش میں چھاپے مارنے شروع کر دیے ہیں۔
پریس ریلیز میں بتایا گیا ہے کہ ان نامزد وکلا کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی بھی شروع کی جا رہی ہے اور ان کے لائسنس معطل کرنے کے لیے اسلام آباد بار کونسل کو ریفرنس ارسال کیا جائے گا۔واضح رہے کہ گزشتہ روز اسلام آباد کی ضلعی انتظامیہ اور اسلام آباد کے ترقیاتی ادارے یعنی سی ڈی اے کی طرف سے ضلعی عدالتوں میں سرکاری جگہ پر بنائے گئے وکلا چیمبرز کو گرانے کے واقعہ کے خلاف اسلام آباد کے وکلا کا ایک گروپ پیر کے روز احتجاج کر رہا تھا۔مقامی پولیس کے مطابق تقریباً تین سو وکلا نے، جن میں خواتین وکلا بھی شامل تھیں، پہلے اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ کی عدالت کے باہر جمع ہو کر نعرے بازی کی اور اس کے بعد ان کی عدالت پر پتھراؤ شروع کر دیا۔
مقامی پولیس اور عینی شاہدین کے مطابق اس صورتحال کو دیکھ کر چیف جسٹس اپنے چیمبر میں چلے گئے اور اسی دوران مشتعل وکلا ان کے چیمبر میں داخل ہو گئے اور انھیں مبینہ طور پر تین گھنٹے تک یرعمال بنائے رکھا۔عینی شاہدین کے مطابق اس دوران وکلا نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے چیمبر میں اس اقدام کے خلاف نعرے بازی بھی کی۔اس موقع پر اسلام آباد کے ڈپٹی کمشنر اور ڈی آئی جی آپریشنز بھی چیف جسٹس کے چیمبر میں پہنچ گئے لیکن ان کی یقین دہانیوں کے باوجود مشتعل وکلا ٹس سے مس نہ ہوئے۔عینی شاہدین کے مطابق اس کے بعد ضلعی انتظامیہ نے جب رینجرز کو طلب کیا تو وکلا چیف جسٹس کے چیمبر سے باہر نکل گئے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس محسن اختر کیانی نے اپنے تئیں وکلا سے درخواست کی تھی کہ وہ چیف جسٹس کے چیمبر سے نکل جائیں لیکن اس پر عمل درآمد نہیں ہوا۔اسلام آباد ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر حسیب چوہدری نے بی بی سی کو بتایا کہ اتوار اور پیر کی درمیانی شب ضلعی انتظامیہ اور پولیس نے ضلعی عدالتوں میں قائم دو سو سے زائد وکلا چیمبر کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے گرا دیا۔انھوں نے کہا کہ ضلعی انتظامیہ نے وکلا کو تشدد کا نشانہ بھی بنایا جس سے ایک درجن کے قریب وکلا زخمی ہوئے۔
انھوں نے کہا کہ معاملہ تو صرف چار چیمبروں کا تھا جو کہ ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کی عدالت کے سامنے تھے لیکن ضلعی انتظامیہ نے ان دو سو چیمبروں کو بھی گرا دیا جو کہ گزشتہ پندرہ سال سے وہاں پر موجود تھے۔حسیب چوہدری نے کہا کہ اگر کارروائی کرنی ہے تو پھر وکلا کے ساتھ ساتھ اسلام آباد کی ضلعی انتظامیہ اور پولیس اہلکاروں کے خلاف بھی کریں جنھوں نے اپنے اختیارات سے تجاوز کر کے وکلا کو تشدد کا نشانہ بنایا۔