منیش تیواری
افغانستان میں 1979کے دسمبر میں پیدا ہونے والا ایک بچہ آج 41برس کا ہو گیا ہے۔4 عشروں کے اس قوسط آمدنی والے شخص نے اب صرف س جدوجہد،تشدد اور خونریزی کو ہی جزو حیات سمجھ لیا ہے۔اس سال 24دسمبر کو سوویت ٹینکوں نے آمو دریا کو پار کرتے ہوئے 9برسوں کا کرور قبضہ کر لیا۔یہ 2016کا سال تھا۔افغانستان 15سالوں کے طالبان کےاثر سے آزاد ہو گیا تھا۔ایک ٹریک – 2 اجلاس میں میں افغان نیشنل آرمی کے سابق سربراہ سے ایک صبح ملا۔میں نے ان سے پوچھا کہ موجودہ وقت میں افغانستان کی حالت کیسی ہے؟انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس جمہوری سرکار ہے،ایک آزاد اور زندہ پریس اور پرنٹ میڈیا ہے،ٹی وی ،ریڈیو سب ڈیجیٹل ہیں۔ا سکول اور کالج میں لڑکیاں اور خواتین جاتی ہیں۔کوئی بھی افغان صدر کو یہ بتا سکتا ہے کہ وہ کہاں غلط ہیں؟یہ دیکھنا ایک نصیحت لینے جیسا تھا کہ ایک سابق فوجی شخص پچھلے ڈیڑھ عشرے کی حصولیابیاں شمار کر رہا تھا اور طالبان کو نقصان پہنچانے یا فائدہ پہنچانے کی بجائے ڈیڑھ عشرے کی کامیابیاں گنوا رہا تھا۔
امریکی صدر جوبائیڈن لگاتار تیسرے صدر ہیں جو امریکہ کی سب سے طویل جنگ کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔2دہائی پہلے امریکی 9/11کے بعد اوسامہ بن لادن اور القاعدہ کی تلاش میں افغانستان میں داخل ہو گئے تھے۔طالبان رہنما ملا عمر نے امریکی غلبہ کو ماننے سے انکار کر دیا تھا جبکہ اسامہ بن لادن اور ملا عمر دونوں اب فورت ہو چکے ہیں،وہیں طالبان اور القاعدہ ابھی بھی زندہ ہیں۔29 فروری 2020کو دوحہ میں امریکہ اور طالبان قیادت میں معاہدہ ہوا۔اس معاہدے کا سب سے اہم پہلو افغانستان سے یکم مئی 2021تک امریکی فوج کی واپسی تھا۔امریکہ کے نئے وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن نے افغانستان کے صدر اشرف غنی کو حال ہی میں ایک خط لکھا۔جس میں انہوں نے افغانستان کیلئے امریکی نظریہ کے بارے میں بتایا۔اسے نہ تو امریکہ نے اور نہ ہی افغان سرکار نے مسترد کیا ہے۔افغانستان میں قیام امن کی حمایت کرنے کیلئے ایک یکساں نظریہ پر تبادلہ خیال کرنے کیلئے روس،چین،پاکستان،ایران، بھارت اور امریکہ کے درمیان وزارتی سطح منصوبہ سازی کی گئی ہے۔امریکہ اور افغانستان دونوں کے امن معاہدے کو آخری شکل دینے کیلئے جلد ہی طالبان اور افغان سرکار نے ترکی کی میزبانی کی۔90دنوں کے تشدد پروگرام میں کمی لانے کی ایک ترمیمی اسکیم وضع کی گئی۔ایک نئی اور مخلوط افغان حکومت سے متعلق افغانستان کے صدر اشرف غنی کو امریکی تجویز کے بارے میں سوچنا ہوگا۔خط میں لکھا گیا ہے کہ ہم ایک مئی تک اپنی فوج کی مکمل واپسی پر غور کر رہے ہیں۔
امریکی فوج کی واپسی کے بعد امریکہ آپ کی فوجوں کو مالی مدد جاری رکھے گا۔میں فکرمند ہوں کہ امن و قانون کی صورتحال خراب ہو جائے گی اور طالبان تیزی سے علاقائی فائدہ ا±ٹھا سکتا ہے۔چونکہ بھارت اب افغانستان کے مستقبل کا فیصلہ کرنے کیلئے بہت گہرائی تک جا رہا ہے،اس لئے اس پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہئے کہ افغانستان میں اس کے پاس حقیقی حکمت عملی والا مفاد کیا ہے۔اسی سوال پر ایک دہائی پہلے لکھنے والے معروف صحافی شیکھر گپتا نے کہا تھاکہ ”افغانستان ابھی بھی عظیم سٹریٹیجک والا ملک ہوگا لیکن کس کیلئے یہ ایک سوال ہے۔یہ ہمارے لئے کوئی حکمت عملی کے حوالے سے اہم نہیں ہوگا۔ہمار ی کوئی بھی سپلائی یا بیوپار افغانستان میں نہیں آتا ہے۔ہمارا کوئی بھی انتہاپسند وہاں نہیں چھپا ہوا ہے۔بھارت پر ہوئے کسی بھی دہشت گردانہ حملے میں کوئی بھی افغان شامل نہیں ہوا ہے ۔کسی بھی بھارت مخالف سازش افغانستان میں میں نہیں رچی گئی۔یہ سب سازشیں و اسکیمیں مظفر آباد ،کراچی اور ملتان میں بنائی گئیں۔ افغان، پختون، بلوچ، تاجک اور دیگر کسی بھی نسل کے لوگوں نے ہندوستان میں ہوئے دہشت گردانہ حملے میں حصہ نہیں لیا۔نہ ہی ان کا ہاتھ پایا گیا۔یہ ہمیشہ سے ہی پاکستانی پنجابی رہے ہیں۔
یہ تجزیہ جیسا آج ہے وہ ایک دہائی پہلے بھی تھا۔اس وقت بھی افغانستان میں ہمارے حقیقی مفاد پر سخت سوال کھڑے نہیں کئے گئے ،نہ ہی یہ سوال آج کھڑے کئے جاتے ہیں۔کیا اس وقت افغانستان میں بھارت کے پیر جمانا ہمارے لئے مدد گار ثابت ہوگا۔ جب ہم دو مورچوں چین اور پاکستان سے لڑ رہے ہوں۔ افغانستان میں ہم اپنی کشتیاں چھوڑنے کیلئے تیار نہیں۔امریکیوں کے افغانستان چھوڑنے کے بعد افغانستان نے ہندوستانی فوج کی موجودگی کی درخواست اگر کی تو کیا ہمارے تیار ہو جانے کی کوئی توقع ہے؟ایسی درخواست پر ہندوستان نے 2003میں عراق میں امریکی دستوں کی تعیناتی کے بعد غور کیا تھا۔اس وقت کے وزیر اعظم اٹل بہاری واجپئی نے ایسا کرنے سے منع کیا تھا۔افغانستان میں اس کی موجودگی کیا ہندوستان کیلئے وسط ایشیا میں کوئی نیا بدلاو¿ لائے گی؟
