لندن : اقتصادی منصوبوں اور پروگرام کے باعث زبردست ہدف تنقید بننے اور یکے بعد دیگرے وزیروں کے استعفوں اور پارٹی میں تقسیم کے ظاہر ہوتے خدشات کے بعد وزیر اعظم لز ٹرس نے وزارت عظمیٰ کے عہدے سے مستعفی ہونے کا اعلان کر دیا۔ واضح ہو کہ لز ٹرس محض 6ہفتے پہلے ہی ٹوری پارٹی کی قیادت کا انتخاب اپنے واحد اور قیبی حریف رشی سوناک کو 20ہزار سے زائد ووٹوں سے شکست دے کر پارٹی قائد منتخب ہونے کے بعد وزارت عظمیٰ کے عہدے پر فائز ہوئی تھیں۔
ان کے مستعفی ہونے سے ایک با پھر رشی سوناک کے وزارت عظمیٰ کے عہدے پر فائز ہونے کے امکانات ظاہر کیے جانے لگے۔برطانیہ میں جاری سیاسی اتھل پتھل اور روز بروز ملک کی بگڑتی اقتصادی صورت حال کے درمیان لز ٹرس کے فیصلے ان کے لیے وبال جاں بن گئے اور وزیروں کے استعفوں کے بعد ٹرس کے مستعفی ہوجانے کے حوالے سے قیاس آرائیاں اور بھی زیادہ شروع ہو گئی تھیں۔جس کا اختتام 10ڈاؤننگ اسٹریٹ میں میڈیاکے نمائندوں سے بات چیت کے دوران وارت عظمیٰ سے مستعفی ہونے کے ان کے اعلان سے ہو گیا۔
میڈیا سے بات کرتے ہوئے انہوں نے اس کا بھی اعتراف کیا کہ وہ پارٹی کے قائد کے طور پر اپنے وعدے پورے نہ کرسکیں ۔کنزرویٹیو پارٹی ، جسے پارلیمنٹ میں قطعی اکثریت حاصل ہے اور آئندہ دو سال تکپارلیمانی انتخابات کرانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے، 28اکتوبر کو نیا قائد منتخب کر لے گی۔سیاسی حلقوں میں سابق وزیر خزانہ رشی وناک ، پینی مورڈنٹ کا نیا وزیر اعظم اور سابق وزیر اعظم بورس جانسن کی واپسی کی خبریں گردش کر رہی ہیں۔