Lockdown in China, record hospitalisations in France as Covid-19 continues to wreak havoc around worldتصویر سوشل میڈیا

جینوا: (اے یو ایس ) عالمی صحت تنظیم (ڈبلیو ایچ او) کے مطابق گذشتہ چند ماہ کے دوران ہلاکت خیز مرض کوویڈ 19کی تباہکاریاں میں کمی واقع ہونے کے بعد اچانک ہی اس مرض نے دوبارہ تیزی سے پھیلنا ک شروع کر دیا اور اب صورت حال یہ ہے کہ اس مرض میں مبتلا ہونے والوں کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔عالمی سطح پر اس مرض کے 48.01کروڑ معاملات کی تصدیق ہو چکی ہے اور اب تک اس مرض میں مبےوتلا ہو کر 61لاکھ 24ہزار 396اموات واقع ہوچکی ہیں۔جہاں ایک جانب چین نے کورونا وائرس کے کیسز میں تیزی سے اضافے کے پیش نظر پیر کے روز سب سے زیادہ آبادی والے شہر شنگھائی میں پیر (28مارچ) سے دو مرحلوں میں لاک ڈاؤن کا نفاذ شروع کر دیا ہے تو دوسری جانب فرانس میں اس مرض میں مبتلا مریضوں کی تعداد میں زبردست اضافہ ہو رہا ہے اور اسپتالوں میں اس کے مریضوں کی تعداد میں بے تحاشہ اضافہ ہو گیا ہے ۔ چین کے سب سے بڑے شہر شنگھائی میں لاک ڈاؤن سے کوویڈ۔19 کے مکمل خاتمے کی حکومتی حکمت عملی اور معیشت کو پہنچنے والے نقصانات پر سوال اٹھنے شروع ہو گئے ہیں۔

مقامی حکومت نے کہا ہے کہ شنگھائی کے اہم کاروباری علاقے پوڈونگ اور اس کے مضافات کو پیر سے جمعہ تک بند رکھا جائے گااور اس دوران کرونا کی ٹیسٹنگ کی جائے گی۔جب کہ لاک ڈاو¿ن کے دوسرے مرحلے میں دریائے ہوانگ پو کے مغرب میں واقع شہر کے وسیع حصے کو جمعے سے بند کر کے کرونا کی ٹیسٹنگ کی جائے گی۔لاک ڈاو¿ن کے دوران لوگوں کو اپنے گھروں میں رہنے کا پابند کیا گیا ہے۔اس دوران وہ اپنا جو سامان منگوائیں گے، وہ ان تک براہ راست نہیں پہنچ سکے گا بلکہ اسے ڈیلیوری چیک پوائنٹس پر چھوڑ دیا جائے گا، تاکہ یہ یقینی بنایا جاسکے لاک ڈاو¿ن کے علاقے میں کسی بھی شخص کا باہر کی دنیا سے کوئی براہ راست رابطہ موجود نہیں ہے۔لاک ڈاو¿ن کے دوران تمام دفاتر اور وہ کاروبار بند رہیں گےجن کا کھولنا انتہائی ضروری نہ ہو۔ اس کے علاوہ پبلک ٹرانسپورٹ بھی بند رہے گی۔شنگھائی میں اتوار کے روز مزید 35 سو کرونا کیسز رپورٹ ہوئے تھے، جن میں سے زیادہ تر میں بظاہر وبا کی کوئی علامت موجود نہیں تھی۔چین میں مارچ کے دوران کرونا وائرس کے 56 ہزار سے زیادہ کیسز سامنے آ چکے ہیں جو گزشتہ دو سال کے عرصے میں، جب سے عالمی وبا کی ابتدا ہوئی تھی، سب سے بڑا اضافہ ہے۔ چین میں 87 فی صد آبادی کو مہلک وائرس سے بچاؤکی ویکسین لگ چکی ہے۔

اس سے قبل بیجنگ میں ایک نیوز بریفنگ کے دوران حکام نے کہا تھا کہ ان کیسز میں آدھے سے زیادہ شمال مشرقی صوبے جیلن میں رپورٹ ہوئے اور ان میں بعض کی علامات بھی ظاہر نہیں ہوئیں۔بریفنگ کے دوران چین می?ں امراض کنٹرول کے مر کز کے سربراہ نے کہا کہ ملک میں اس وبائی مرض کے سلسلے میں کوئی رعایت نہ برتنے والی حکمت عملی جاری ہے۔انہوں نے کہا کہ یہ کوویڈ-19 کے خلاف سب سے مو ثر اور کم خرچ حکمتِ عملی ہے۔ اس حکمتِ عملی کے تحت لاک ڈاو¿ن کیا جاتا ہے اور وسیع پیمانے پر ٹیسٹنگ ہوتی ہے اور متاثرہ افراد کو قرنطینہ میں رکھا جاتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس حکمتِ عملی پر حال ہی میں ملک کے سب سے بڑے شہر شنگھائی میں عمل درآمد کیا گیا، جہاں اس ہفتے کورونا کی اومیکرون قسم کے کئی کیسز رپورٹ ہوئے تھے۔دوسر ی جانب جنوبی کوریا میں بھی کوویڈ-19نے ایک بار پھر زور پکڑا ہے اور فروری کے اوائل سے اب تک90 لاکھ سے زیادہ کیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔کورین حکام کے مطابق جمعے کو تین لاکھ 39 ہزار سے زائد کیس رپورٹ ہوئے۔

علاوہ ازیں یورپی یونین کی یورپین میڈیسن ایجنسی نے کہا ہے کہ وہ ایسٹرازینیکا کی اینٹی باڈی دوا کے استعمال کی اجازت دے رہی ہے۔ یہ 12سال سے بڑی عمر کے افراد کو دی جائے گی۔اس نئی دوا کا مقصد کرونا کا انسداد ہے اور یہ ان لوگوں کو دی جائے گی جنہیں تاحال کرونا وائرس نہیں ہوا۔ ایجنسی کا کہنا ہے کہ ڈیٹا سے ظاہر ہوا ہے کہ یہ دوا انفیکشن کو روکنے کے سلسلے میں 70 فی صد مو ثر ہے تاہم اومیکرون ویریئنٹ کے خلاف یہ نسبتاً کم مو ثر ثابت ہو سکتی ہے۔گزشتہ ہفتے برطانیہ میں بھی اس کے استعمال کی اجازت دے دی گئی ہے۔ امریکہ میں دسمبر میں اس کے استعمال کی محدود اجازت دی گئی تھی اور یہ صرف ان لوگوں کے لیے تجویز کی گئی ، جن کوصحت کے سنگین مسائل ہیں یا انہیں الرجی کا مرض لاحق ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *