کابل:(اے یو ایس )افغانستان سے امریکی فوجی انخلا کی پہلی برسی پر ایک غمزدہ افغان ایک بار پھر وہ وقت یاد کر کے تڑپ اٹھا جب ٹھیک ایک سال قبل جب طالبان کابل میں داخل ہوئے اور ان کے خوف سے فرار ہونے والے افغانوں میں شامل اس کے دو بیٹوں نے بھی بیرون ملک پرواز کرنے والے امریکی فضائیہ کے C-17 مال بردار طیارے سے ملک سے بھاگ جانے کی کوشش کی لیکن ان میں سے ایک جہاز سے گر کر ہلاک ہو گیا اور دوسرے کا ہنوز کوئی اتہ پتہ نہیں ہے۔اب اس دکھیارے باپ کا کہنا ہے کہ امریکہ کو اسے معاوضہ ینا چاہئے۔ اس نہایت ہولناک سانحے کا شکار ہونے والا ایک17سالہ نوجوان زابی رضائی ان خوفزدہ شہریوں میں سے ایک تھا جس نے 16 اگست 2021 کو کابل کے حامد کرزئی انٹرنیشنل ایئرپورٹ کے رن وے پر جاتے ہوئے امریکی فضائیہ کے C-17 مال بردار طیارے کے لینڈنگ گیئر اور وہیل کور کو پکڑ لیا اور طیارے کے اندر داخل ہونے کی کوشش کی لیکن پائلٹ نے اس طرف کوئی توجہ نہیں دی اور طیارے کو فضا میں بلند کر دیا ۔ جہاز کے زمین سے فضا میں بلند ہوتے ہی وہ گر گیا۔
زابی رضائی کے والد نے اپنے بیٹے کی المناک موت کے بارے میں لندن سے شائع ہونے والے’ سنڈے ٹائمز‘ سے بات کی۔محمد رضائی نے کہا کہ مقتول کا 19 سالہ بھائی ذکی جو اپنے بھائی کی طالبان سے فرار کی کوشش میں شامل تھا کا اس کے بعد کوئی اتہ پتہ نہیں۔42 سالہ رضائی نے کہا کہ “میں تکلیف میں ہوں، میں غصے میں ہوں، لیکن میں کچھ نہیں کرسکتا۔ میں نے اپنے بیٹے کو دفن کردیا ہے اور مجھے نہیں معلوم کہ میرا دوسرا بیٹا زندہ ہے یا مر گیا ہے۔”خیال رہے کہ افغانستان میں طالبان کے ڈرامائی قبضے اور امریکی فوج کے فرار کے دوران جہازوں سے لٹک کر گرنے کے واقعات کی ویڈیوز نہ صرف جنگل کی آگ کی طرح پھیلیں بلکہ ان واقعات نےایک بار پھر دنیا کی توجہ جنگ زدہ افغانستان اور اس میں موجود افراتفری کی طرف مبذول کرائی۔کم از کم پانچ ممکنہ مسافرفرار کی کوشش میں جہازوں سے گر کر ہلاک ہوئے۔ تاہم صحیح تعداد کا ابی تک کسی کو علم نہیں ہو سکا ہے ۔دو افراد رہائشی محلے میں گرے اور ایک گھر کی چھت پر گرا اور ایک لاش قطر میں اترتے وقت طیارے کے پہیے سے نیچے گری تھی۔آٹھ بچوں کے والد رضائی نے غصے سے کہا میں پائلٹ کو مورد الزام ٹھہراتا ہوں اور امریکیوں پر الزام لگاتا ہوں جو ہوائی اڈے کی حفاظت کے ذمہ دار تھے۔
انہوں نے مزید کہا کہ مجھے نہیں لگتا کہ جو لوگ جہاز سے چمٹے ہوئے تھے، انہوں نے واقعی یہ سوچا تھا کہ طیارہ پرواز کرنے والا ہے۔ دونوں نوجوانوں نے اپنے والدین کو ملک سے فرار ہونے کے اپنے منصوبے کے بارے میں نہیں بتایا۔ ان کے والد نے کہا کہ مجھے اس کا علم اس وقت ہوا جب ان دونوں نے مجھے ایئرپورٹ سے فون کیا۔ وہ پرجوش تھے اور ملک سے جا رہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ وہ جہاز میں سوار ہونے والے ہیں۔ میں ان کے لیے خوش تھا کہ وہ ایک محفوظ مقام کی طرف روانہ ہو رہے ہیں، کیونکہ ہم سب بہت خوفزدہ تھے کہ طالبان کے کنٹرول کے ساتھ یہاں کیا ہوگا۔ کال صرف ایک یا دو منٹ تک جاری رہی۔ یہ میری ان سے آخری بار بات تھی۔چند منٹ بعد ایک اجنبی نے اس کے بیٹے کی موت کی اطلاع دینے کے لیے فون کیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ میں نے اسے کٹا ہوا پایا اور کسی نے اس کے ننگے جسم پر اسکارف ڈالا ہوا تھا اور اس کا نچلا حصہ کچلا ہوا تھا ۔جہاں تک دوسرے بیٹے کا تعلق ہے تو اب تک اس کا کوئی سراغ نہیں مل سکا ہے۔ کابل کے اسپتالوں اور جیلوں میں باپ کی تلاش کے باوجود ان کے بڑے بیٹے ذکی کی موجودگی کا کوئی نشان نظر نہیں آیا۔
انہوں نے کہا کہ آج تک مجھے ذکی کے بارے میں کوئی اطلاع نہیں۔ اس کی اہلیہ شدید صدمے میں ہے۔دل گرفتہ افغانی نے کہا کہ میرے دونوں بچے نہایت شریف تھے۔ وہ فٹبال کھیلنے کے شوقین تھے۔وہ پڑھے لکھے تھے۔ ذکی انگریزی بول سکتے تھے اور وہ اپنے چھوٹے بہن بھائیوں کو تھوڑا بہت سکھایا کرتے تھے۔یہ خاندان غربت اور بدحالی کے ساتھ جدوجہد کر رہا ہے، کیونکہ طالبان کی گرفت نے ملک کی نصف آبادی کو فاقہ کشی کی طرف دھکیل دیا ہے۔رضائی نے کہا کہ اپنے بیٹوں کی مدد کے بغیر وہ مزید پھلوں اور سبزیوں کی دکان نہیں چلا سکتے۔انہوں نے کہا کہ مجھے لگتا ہے کہ اپنے بچوں پر غصہ کرنا وقت کا ضیاع ہے۔ مجھے اس توانائی کو اپنے باقی بچوں کی کفالت کا راستہ تلاش کرنے کے لیے استعمال کرنا ہوگا، لیکن میں یہ جاننے کے لیے کچھ بھی کروں گا کہ ذکی کے ساتھ کیا ہوا۔