Mahinda Rajapaksa's tale of rise and fallتصویر سوشل میڈیا

کولمبو: باغی تنظیم ‘لبریشن ٹائیگرز آف تمل ایلم'(ایل ٹی ٹی ای) کو کچلنے اور تقریباً 30 سالہ خانہ جنگی کا خاتمہ کرنے کے باعث وہی مہند اراجا پاکسے جن کو کسی زمانے میں یدھ نائیک (جنگی ہیرو )سمجھا جاتا تھا، آج ایک ایسا ویلن بن گئے ہیں کہ اگر استعفیٰ دے کر ملک چھوڑ کر یہ حکمراں راجا پاکسے خاندان کے دیگر افراد کی طرح ملک سے فرار نہ ہو جاتے تو نہ معلوم عوام ان کا کیا حشر کرتے کیونکہ آج اس پورے خاندان خاص طور پر صدر گوتابایاراجا پاکسے اور وزیر اعظم مہندرا راجا پاکسے کو ا نہی لوگوں کے غصے کا سامنا ہے جنہوں نے کبھی انہیں سر آنکھوں پر بٹھا رکھا تھا۔سابق صدر مہندا راج پکشے کے چھوٹے بھائی اور 73 سالہ رہنما گوٹابایا راج پکشے ایک سابق فوجی افسر ہیں جنہوں نے 1980 میں آسام کے کاو¿نٹر انسرجنسی اور جنگل وارفیئر اسکول میں تربیت حاصل کی۔ وہ فوجی پس منظر کے حامل پہلے شخص ہیں جنہیں 2019 میں بڑے مینڈیٹ کے ساتھ سری لنکا کا صدر منتخب کیا گیا تھا۔

انہوں نے ایک ایسے وقت میں صدارت سے استعفیٰ دیا ہے جب مظاہرین نے ان کی سرکاری رہائش گاہ پر قبضہ کر رکھا تھا اور ان پر ملکی معیشت کو تباہی کی طرف لے جانے کا الزام لگایا تھا۔ سری لنکا کو 1948 میں برطانیہ سے آزادی کے بعد سب سے شدید معاشی بحران کا سامنا ہے۔ملک کے پاس زرمبادلہ کے ذخائر ختم ہو چکے ہیں، جس کا مطلب ہے کہ وہ خوراک اور ایندھن کی درآمدات کے لیے ادائیگی نہیں کر سکتا، جس کی وجہ سے ان چیزوں کی شدید قلت ہوگئی ہے اور مہنگائی آسمان سے باتیں کر رہی ہے۔ راج پکشے نے بڑھتے ہوئے دبا و¿کے بعد اپریل کے وسط میں اپنے بڑے بھائی چمل اور بڑے بھتیجے نمل کو کابینہ سے ہٹا دیا تھا۔ مہندا راج پکشے نے بھی بعد میں استعفیٰ دے دیا تھا، جب ان کے حامیوں نے حکومت مخالف مظاہرین پر حملہ کیا، جس سے ملک کے کئی حصوں میں راج پکشے خاندان کے حامیوں کے خلاف تشدد ہوا تھا۔ گوٹابایا راج پکشے نے چند ہفتوں تک رانیل وکرماسنگھے کو وزیر اعظم بنا کر بحران پر قابو پانے کی کوشش کی لیکن بالآخر ناکام رہے اور بڑے پیمانے پر احتجاج کے درمیان انہیں اپنی سرکاری رہائش گاہ چھوڑنی پڑی۔

ایک نامعلوم مقام سے، گوٹابایا راج پکشے نے ہفتے کی رات پارلیمنٹ کے اسپیکر مہندا یاپا ابھے وردھنے کو مطلع کیا کہ وہ بدھ کو مستعفی ہو جائیں گے۔ تاہم وہ ملک چھوڑ کر عہدے سے مستعفی ہوئے بغیر مالدیپ چلے گئے۔ مالدیپ سے وہ سنگاپور چلے گئے۔ سنگاپور پہنچنے کے بعد راج پکشے نے اپنا استعفیٰ اسپیکر کو بھیج دیا۔ سری لنکا کی سنہالی بدھ اکثریتی برادری نے راج پکشے کو 2009 میں ایل ٹی ٹی ای کے رہنما وی پربھاکرن کی موت کے بعد تنازعہ کو ختم کرنے میں ان کے کردار کے لیے ایک جنگی ہیرو قرار دیا۔ تاہم ان پر انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا الزام بھی لگایا گیا۔ راج پکشے پر سیاسی قتل کا بھی الزام تھا۔ لٹے (ایل ٹی ٹی ای) کے نشانے پر آئے راج پکشے دسمبر 2006 میں ایک خودکش حملے میں بال بال بچ گئے تھے۔ انہیں چین کی طرف جھکاو¿ رکھنے والا بھی سمجھا جاتا ہے۔ مہنداا کے دور میں چین نے سری لنکا میں بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں میں سرمایہ کاری شروع کی۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ مہندا کی وجہ سے ملک چین کے قرضوں کے جال میں پھنسنے لگا۔

مہندا کے دور میں چین نے ہمبنٹوٹا بندرگاہ کے لیے قرض دیا اور قرض کی عدم ادائیگی کی وجہ سے ملک نے اسے 99 سال کے لیز پر چین کے حوالے کر دیا۔سری لنکا بحر ہند میں اپنی اسٹریٹجک پوزیشن کی وجہ سے سمندری راستوں پر تجارت کا ایک تاریخی مرکز رہا ہے اور چین بھی بحر ہند پر تیزی سے غلبہ حاصل کر رہا ہے۔ 20 جون 1949 کو متارا ضلع کے پلاٹوا میں تولد ہوئے، راج پکش9بہن بھائیوں میں پانچویں نمبر پر ہیں۔ ان کے والد ڈی .اے . راج پکشے 1960 کی دہائی میں وجیانند دہانائیکے کی حکومت میں ایک نمایاں رہنما اور سری لنکا فریڈم پارٹی کے بانی رکن تھے۔ راج پکشے نے اپنی ابتدائی اور ثانوی تعلیم کولمبو کے آنندا کالج سے حاصل کی اور 1992 میں کولمبو یونیورسٹی سے انفارمیشن ٹیکنالوجی میں ماسٹرز کیا۔ انہوں نے 1971 میں سیلون آرمی میں بطور کیڈٹ آفیسر شمولیت اختیار کی۔ انہوں نے 1983 میں مدراس یونیورسٹی سے ڈیفنس اسٹڈیز میں ماسٹر ڈگری حاصل کی۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *