گل بخشالوی
گجر پورہ کے قریب ہائی وے پر ریپ اور ڈکیتی کی وادات سے میڈیا والے کراچی اور کراچی والوں کو بھول گئے اور نئی افسوسناک واردات پر من گھڑت کہانیوں سے اپنے اپنے چینل کو چار چاند لگا دیئے۔ بے حسی کی انتہا ہے قومی غیرت سے بے پروا میڈیا والوں کی آواز پر وزیرِ اعلیٰ پنجاب ، آئی جی پنجاب اور سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی بھی آنکھ کھل گئی ہے وزیرِ اعلیٰ نے پانچ ،اور آئی جی نے چھ رکنی کمیٹی بنائی جبکہ چیف جسٹس نے فرمایا ہائی وے کا سانحہ قوم کے لئے شرمندگی کاباعث ہے ۔موٹروے اور ہائی وے پر سفر غیر محفوظ ہے مسافروں کو سنگین جرائم کا سامنا ہے پولیس کا نظام غیر پیشہ ورانہ اور غیر ذمہ دار لوگوں کے ہاتھوں میں ہے محکمہ پولیس میں سیاسی مداخلت کی وجہ سے عوام غیر محفوظ ہیں حکومت جاگے اور محکمہ پولیس کی ساکھ کو بحال کرے۔
جنرل مشرف کی بیماری پر قانو ن کے ترجمان نواز شریف کو قانون سے بالاتر سمجھنے والے مسلم لیگ ن اور ان کی ہم آواز اپوزیشن جماعتوں نے ہائی وے واردات کو پولیس کی غفلت قرار دیتے ہوئے لاہور پو لس کے افسرِ اعلیٰ کے استعفٰی کے ساتھ مطالبہ کیا کہ پنجاب بھر میں پولیس کے تبادلوں کا نوٹیفیکشن واپس لیا جائے اپوزیشن سینٹ اور قومی اسمبلی میں کسی اور کاروائی کی بجائے گجر پورہ واردات پر آواز اٹھائے گی جبکہ پنجاب پولیس نے حراست میں لئے ہوئے سا ت مشتبہ افراد میں ایک پر شبہ ظاہر کرتے ہوئے اس کے دوسرے ساتھی کی تلاش شروع کر دی اور واردات کا مقدمہ درج کروانے والے دو افراد کو بھی شاملِ تفتیش کر لیا اس المناک واردات پر سوشل میڈیا کے فلاسفروں نے الگ رنگ جمایا ہے۔
میرے پاکستان میں جب بھی ایسی کوئی انسانیت سوز واردات ہوتی ہے تو ایک عام آدمی سے سپریم کورٹ کے جج تک کا دل ہل جاتا ہے لیکن اگر اس دوران ایسی نوعیت کی کوئی دوسری واردات ہوتی ہے تو پہلی کو بھول کو دوسری کا ماتم شروع کر دیا جاتا ہے۔ممکن ہے میں توہینِ عدالت یا توہینِ چیف جسٹس کا مرتکب ہو رہا ہوں لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ چیف جسٹس نے پولیس کو موردِ الزام کیوں ٹھہرایا ۔عدالت نے پولیس کو کیا تحفظ فراہم کیا ہے کیا پاکستان میں مظلوم کی داد رسی ہوتی ہے کیا پاکستان میں عدالتیں ظالم کا ساتھ نہیں دیتیں اگر میں غلط ہوں تو بلوچستان میں ایک پولیس سارجنٹ کو ڈیوٹی کے دوران کار کی ٹکر سے سرِ عام قتل کیا گیا موقع پر موجود لوگوں اور کیمرے کی آنکھ سے دنیا نے ایم پی اے کو گاڑی سے اترتے دیکھا۔ دن اکے اجالے میں دن دھاڑے سڑک پر انجام دی دی گئی اس وحشیانہ واردات کے ملزم کو عدا لت نے عدم ثبوت کی بنا پر بری کر دیاکیاچیف جسٹس نے اپنے زیرِ انتظام عدا لت کی بے رحمی کا کوئی نوٹس لیا کیا اندھے قانون کو سوچا ہلاک ہونے والے پولیس کے ملازم کو سوچا اس کے یتیم بچوں کو سوچا اگر نہیں تو چیف جسٹس کی نظر میں صرف پولیس والے مجرم کیوں ہیں کیا بلوچستان کی عدالت نے قانون کی دھجیاں نہیں اڑائیں۔
پولیس نے زیرِ حراست مشتبہ افراد میں ایک پر شبہ ظاہر کرتے ہوئے اس کے دوسرے ساتھی کی تلاش شروع کر دی اگر پولیس پر اداروں کا دباﺅ بڑھ گیا تو پولیس اداروں ،میڈیا اور عوام کے غیض وغضب سے نجات کے لئے مشتبہ شخص کو اپنے ساتھی کی نشان دہی کے لئے ساتھ لے کر جائے گی وہ پولیس کی حراست سے بھاگے گا اور پولیس کی گولی کا نشانہ بن جائے گا اسطرح المناک اور افسوسناک و اردات کی کہانی ختم ہو جائے گی ۔ اس لئے کبھی نہ ختم ہونے والا یہ سلسلہ اگر ختم کرنا ہے سفاک مجرموں کو واقعی کیفرِ کردار تک پہنچانا ہے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے مذہبی وقار کو بلند کرنا ہے تو اپوزیشن اسمبلیوں میں مظلوم کی مظلومیت پر سیاست چمکانے کی بجائے قانون سازی میں حکومتِ وقت کا ساتھ دے تاکہ ایسی بے رحم وارداتوں کے مجرموں کو سرِ عام پھانسی پر لٹکایا جا سکے ور نہ کل کوئی اور خاتون کسی جنسی درندے کی ہوس کا نشانہ بنے گی بھاری پتھرسے اس کا سرکچلا جائے گا تو قوم اور میڈیا گجر پورہ واردات کو کو بھول جائے گی اور نئی ظالمانہ واردات پر مگر مچھ کے آنسو بہائے گی اور ظلم وبربریت کا یہ سلسلہ جاری رہے گا۔