کوالالمپور: ملیشیائی وزیر اعظم مآثر محمد نے بادشاہ وقت کو اپنا استعفیٰ نامہ بھیج کر سب کو ششدر کر دیا۔ مآثر محمد کے استعفے اور ان کی پارٹی نے محض دو سال بعد ہی حکمراں اتحاد سے علیحدگی اختیار کرکے ملیشیا کے حکمراں اتحاد کے ڈانواں ڈول ہونے کے حوالے سے جو شکوک و شبہات جنم لے رہے تھے انہیں حقیقت میں بدل دیا۔
کیونکہ ماٰثر محمد کی پارٹی اور حزب اختلاف کے کچھ اراکین پارلیماں کے درمیان ماٰثر محمد کے جانشین انور ابراہیم کو ڈراپ کرکے نئی حکومت تشکیل دینے پر گذشتہ ہفتہ ہونے والے مذاکرات کے بعد سے ہی حکمراں اتحاد کا مستقبل خطرے میں نظر آرہا تھا ۔
ماٰثر محمد نے اپنا استعفیٰ نامہ عزت ماٰب شاہ ملیشیا کو دوپہر ایک بجے بھیجا۔انور ابراہیم کو بھی آج شام میں شاہ مملکت سے ملاقات کرنا تھی ۔تاہم یہ واضح نہیں ہے کہ ابراہیم کو حکومت سازی کے لیے اراکین کی مطلوبہ تعداد کی حمایت حاصل ہے یا نہیں۔
ماٰثر محمد اور انور ابراہیم نے 2018کے عام انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے ہاتھ ملا لیا تھا ۔اور اس وعدے کے ساتھ کہ ماٰثر محمد اور انور ابراہیم ڈھائی ڈھائی سال وزارت عظمیٰ کے عہدے پر رہیں گے، طویل عرصہ سے حکومت پر قابض یونائیٹڈ ملیز نیشنل آرگنائزیشن کو اقتدار سے بے دخل کر دیا تھا۔
دنیا کے معمر ترین وزیر اعظم 94سالہ ماٰ ثر محمد اور72سالہ انور ابراہیم کے درمیان رسہ کشی نے کئی عشروں سے ملیشیائی سیاست کو نئی شکل دی تھی لیکن باہمی کشیدگی اور دونوں خیموں میں تناؤ برقرار تھا۔یہ بھی فوری طور پر واضح نہیں ہو سکا ہے کہ شاہ کا آئندہ قدم کیا ہوگا۔
اور یہ کہ کیا ماٰثر محمد یونائیٹڈ ملیز نیشنل آرگنائزیشن سمیت دیگر پارٹیوں کی حمایت سے حکومت سازی کر سکتے ہیں ۔