ممتاز میر

پاکستان دنیا کا عجیب و غریب ملک ہے ۔تیسری دنیا کے اکثر ممالک کی طرح وہاں بھی اکثر فوج ہی حکومت کرتی ہے۔اگر فوج بیرکوں میں قیام پذیرہو تب بھی پس پردہ حکومت وہی کرتے ہیں۔اور جو کوئی کبھی فوج سے ڈکٹیشن لینے سے انکار کرتا ہے تو اسے یا تو جلا وطن ہونا پڑتا ہے یا جیل آباد کرنی پڑتی ہے۔اگر آپ فوج سے بنا کر رکھتے ہیں تو پھر آپ جو چاہے کر سکتے ہیںکوئی آپ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا ہے ۔ماضی قریب میں سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس افتخار چودھری وہ واحد شخصیت ہے جس نے فوجی آمر جنرل پرویز مشرف سے بگاڑا بھی اور اپنی کرسی واپس بھی حاصل کی ۔یعنی فوجیوں سے ٹکرایا بھی جا سکتا ہے اور محفوظ بھی رہا جا سکتا ہے۔جیسے ترکی میں رجب طیب اردغان نے کرکے دکھایا ہے۔

مگر یہ بھی سچ ہے کہ ملکی اداروں کو جتنا برباد فوجیوں نے کیا ہے اس سے زیادہ وہاں کے سول حکمرانوں یا سیاستدانوں نے کیا ہے۔ذوالفقار علی بھٹو چاہتے تھے کہ فوج وہاں کی احتجاج کرتی عوام پر گولیاں چلائے۔یہی بات ان کے تختہ پلٹ کا سبب بن گئی۔میاں نواز شریف نے کئی بار عدالتوں پر حملہ کیا۔آصف زرداری اپنی اہلیہ کے راج میں مسٹرٹین پرسنٹ کہلاتے تھے خود صدر بنے تو ان کا عہدہ بڑھ کر مسٹر سینٹ پرسنٹ کا ہوگیا ۔مگر فوجی آمر جنرل ضیاءالحق جو کہ عالم اسلام کے ہیرو بن گئے تھے انھوں نے پیپلز پارٹی کی دشمنی میں سندھ پر ایک ایسے طالب علم لیڈر کو مسلط کر دیاجس کے شیطانی سائے سے ملک آج بھی پوری طرح آزاد نہیں ہو سکا ہے ۔ضیاءالحق تو اللہ کو پیارے ہوگئے مگر طالب علم کم سیاستداں کم ڈان ایسا بھسماسر بن گیا تھا کہ اس کے جنم داتا فوجیوں کو بھی اس کے ہیڈ کوارٹر نائن زیرو جاتے وقت اپنے ہتھیار گیٹ پر رکھنا پڑتے تھے۔پاکستان اسی لئے عجیب غریب ملک ہے ۔ وہ علی الاعلان ملک سے غداری کی باتیں کرتا تھا اور فوجی اور سیاستداں اس کے یہاں پانی بھرا کرتے تھے۔بہرحال اب مکافات عمل نے اس کو گرفت میں لے لیا ہے۔

کچھ ایسا ہی حال جناب عمران خان صاحب کا بھی ہے۔1992میں کرکٹ کا اکلوتا ورلڈ کپ جیتنے کے بعد وہ بھی میاں بھائیوں کے ہیرو بن گئے تھے۔خدمت خلق کے کاموں سے دھیرے دھیرے انھوں نے سیاست میں چھلانگ لگائی۔ان کی سیاست کی ابتداءہی امپائر اوراس کی انگلی سے ہوئی۔وہ ہر کام کرنے سے پہلے اور بعد میں فوج کی طرف دیکھتے رہے۔ بہرحال ان کے امپائر نے انھیں وزیر اعظم بنا دیا اسی لئے انھیں وہاں Selected وزیر اعظم کہا جاتا ہے ۔انھیں وہاں مسٹر یو ٹرن بھی کہا جاتا ہے ۔اسلئے کہ انھوں نے وعدے تو بہت کئے مگر ان سے پلٹ گئے اور ببانگ دہل کہا کہ یو ٹرن لینے میں ہرج کیا ہے۔اوروں کا تو معلوم نہیں ہمارے نزدیک خانصاحب کا پہلا یو ٹرن وہ تھاجب انھوں نے تحریر و تقریر کی ساری بڑھکیں مارنے کے بعد شادی کے لئے ایک یہودی حسینہ کا انتخاب کیا تھا ۔اس دن ان کے تعلق سے ہماری ساری خوش فہمیاں ہوا ہو گئی تھیں۔ جس طرح ہمارے یہاں ہمارے سیاستدانوں نے اپنی ہر بات سے پلٹ جانے کے لئے ’انتخابی جملہ‘ یا اس طرح کے دلائل ایجاد کئے ہیں اسی طرح وہاں آکسفورڈ رٹرن نے یو ٹرن ایجاد کیا ہے۔ خانصاحب وزیر اعظم تو بن گئے مگر ان کی ناکامیوں کا حال یہ ہے کہ وہ اپنی فیلڈ کرکٹ میں بھی ملک کو اوپر نہیں اٹھا سکے ۔ٹیم کا حال یہ ہے کہ وہ کمزور ٹیموں سے ہوم گراؤنڈ پر ہار رہی ہے ۔معیشت ،معاشرت ،لاءاینڈ آرڈر میں ملک روز افزوں بربادی میں مبتلا ہے ۔ملک روز ایک نئی انتہا کو چھو رہا ہے۔

ابھی11 دسمبر کو پاکستان کی تاریخ کا ایک نیا شرمناک واقعہ پیش آیا ہے ۔لاہور ہائی کورٹ کے وکلاءنے پاکستان انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی میں گھس کر وہ توڑپھوڑ (دہشت گردی) مچائی کہ اسپتال کے3,4 یا چھ مریض جاں بحق ہوگئے۔کہتے ہیں کہ دو ہفتے پہلے نومبر میں لاہور ہائی کورٹ کے کچھ نوجوان وکلاءعلاج کی غرض سے پاکستان انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی گئے تھے جہاں ڈاکٹرس نے ان پر وہ توجہ نہ دی جوان تیس مار خان وکلاءکو بزعم خود ملنی چاہئے تھی ۔(حالانکہ یہ خود اپنے کلائنٹس پہ اتنی ہی توجہ دیتے ہیں جتنا اس کو لوٹا جا سکتا ہے) یہ بات بار کونسل میں انھوں نے اپنے سینئرس کو بتائی ،تو ان کے سینئرس نے ان کو بھڑ کایا کہ وہ مرد بنیں۔

خبروں سے ہم جو سمجھے وہ یہ ہے کہ سینئرس نے انھیں یہ کہا کہ اپنی پرسنالٹی ایسی بناؤ کہ لوگ مانگنے سے پہلے انھیں دے دیں۔ایسی شخصیت قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے بڑی مشکل سے بنتی ہے۔ اس لئے قانون کے رکھوالوں میں سے ایک جز نے (آج پورے برصغیر میں قانون کا جسم سڑ کر بدبو مار رہا ہے)اپنے جونیئرس کو سمجھانے کے لئے اسپتال انتظامیہ کے ساتھ ایک میٹنگ رکھی ۔اور پھر اسپتال لے جاکر نوجوان وکلا کو سمجھایا کہ اپنی رٹ کس طرح قائم کی جاتی ہے ۔اس واقعے کی خبر ہم نے پہلی بار پڑھی تو ہمارا دل دہل گیا ۔یہ اس ملک کا حال ہے جسے اسلام کے نام پر وجود میں لایا گیا۔جس کے فوجی حکمراں کا کارٹون بنا کر کتے سے تشبیہ دی گئی تھی ۔ڈوب مرنے کے لئے چلو بھر پانی کافی ہوتا ہے ورنہ بے شرموں کو کسی حال شرم نہیں آسکتی۔یہ وکلا جب اپنے ساتھیوں کو تشدد کا سبق دے رہے ہیںتو اپنے کلائنٹس کے ساتھ کیس جیتنے کے لئے کیا نہیں کرتے اور کرواتے ہونگے۔ان میں کتنے لوگ ہونگے جنھیں حلال و حرام کا پاس ہوتا ہوگا؟کیا یہ کیس جیتنے کے لئے ہر غلط طریقہ استعمال کر کے فریق مخالف کو جیل میں ڈلوانے یا پھانسی پہ چڑھوانے سے گریز کرتے ہونگے؟ان بے شرموں بے غیرتوں کے یہ سارے اعمال عصری قوانین کے خلاف تو ہیں ہی خلاف شرع بھی ہیں۔انہی اعمال کے نتائج ہیں کہ پاکستان برسوں سے پے درپے حادثات سے دو چار ہے مگران کے سیاستداں ،ان کے دانشور، عوام کسی حال سدھرنے کا نام نہیں لیتے ۔پھر خدائے بزرگ و برتر انھیں طوفانوں سے دوچار کرتارہتا ہے تو اس میں تعجب کیسا ؟

کہتے ہیں جب جاگو تب سویرا ۔ہم معمولی آدمی ہیں خواہش یا دعا ہی کر سکتے ہیں۔الطاف حسین نے بھی کئی قتل عام کروائے تھے مگر وہ ان کے حریفوں کا دور تھا۔خانصاحب اپنے دور میں تو مجرموں کو قرار واقعی سزا دلوائیں۔ہماری دعا ہے کہ اللہ انھیں اس بار یو ٹرن لینے سے باز رکھے ۔کیونکہ ان کی پارٹی کا نام ہی پاکستان تحریک انصاف ہے ۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *