دمشق(اے یو ایس ) شام کے صدر بشار الاسد نے عرب دنیا کے ساتھ اپنے ملک کے نئے تعلقات کے حوالے سے توقعات کو کم کردیا ہے۔ بشار الاسد نے کہا کہ باغیوں کے زیر قبضہ شمال مغربی شام سے انقرہ کی فوجوں کے انخلا پر تنازع کی وجہ سے ترک صدر طیب ایردوان سے ملاقات نہیں ہو سکی۔57 سالہ بشار الاسد 2011 میں اپنے خلاف شروع ہونے والے مظاہروں کے خلاف کریک ڈاو¿ن کی وجہ سے بڑے پیمانے پر الگ تھلگ ہو گئے تھے لیکن فروری میں شام اور ترکیہ میں آنے والے خوفناک زلزلے نے عرب دنیا اور انقرہ کے ساتھ تعلقات کی بحالی کو تیز کر دیا۔
بدھ کے روزبشار الاسد ایردوان کے ساتھ سربراہی ملاقات سمیت دیگر امور پر توقعات کو کم کرتے نظر آئے۔بشار الاسد نے کہا کہ ہمارا مقصد ترکی کا شامی سرزمین سے انخلا ہے۔ جب کہ ایردوان کا ہدف شام میں ترکیہ کے قبضے کی موجودگی کو قانونی حیثیت دینا ہے۔ اسی لیے یہ ملاقات ایردوان کی شرائط پر نہیں ہو سکتی۔ انہوں نے کہا میں اور اردگان کیوں ملیں گے؟ مشروبات پینے کے لیے؟واضح رہے مئی میں جدہ میں عرب لیگ کے سربراہی اجلاس میں بشار اسد کا پرتپاک استقبال کیا گیا تھا جہاں انہوں نے سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان سے بھی بات چیت کی۔ یہ پوچھے جانے پر کہ وہ عرب دنیا سے کیا توقع رکھتے ہیں بشار الاسد نے کہا کہ میں توقع نہیں کر سکتا میں امید کر سکتا ہوں۔
انہوں نے مزید کہا کہ یہ توقع کرنا غیر حقیقی ہے، یہ تعلقات جو معمول کے قریب نظر آنے لگے ہیں مہینوں کے اندر معاشی نتائج کا باعث بنیں گے۔شام کی معیشت شدید مشکلات کا شکار ہے۔ بشار الاسد نے کہا کہ حالات زندگی کی بگڑتی ہوئی صورتحال نے لاکھوں بے گھر شامیوں کو اپنے وطن واپس جانے سے روک رکھا ہے۔واضح رہے عرب ریاستوں نے قریبی تعلقات کے بدلے شام پر دباو¿ ڈالا ہے کہ وہ شام کے ذریعہ سے ہونے والی منشیات کی بڑھتی ہوئی تجارت پر قابو پائیں۔بشار الاسد نے کہا کہ شامی ریاست پر منشیات کی سمگلنگ میں ملوث ہونے کا الزام لگانا “غیر منطقی” ہے۔ منشیات کے خلاف جنگ میں شام کا عرب ریاستوں کے ساتھ “مشترکہ مفاد” ہے۔واضح رہے شام کے اعلیٰ حکام جن میں بشار الاسد کا بھائی مہر بھی شامل ہے کو منشیات کی سمگلنگ میں مبینہ طور پر ملوث ہونے پر امریکہ اور یورپی یونین کی جانب سے حالیہ مہینوں میں پابندیوں کے ایک نئے سلسلے کا سامنا کرنا پڑا ہے۔