(شیخ خالد زاہد)
اونٹ کسی کروٹ بیٹھنے کو تیار نہیں دیکھائی دے رہا۔ کاروباری سرگرمیاں کھولنی ہیں یا بند رکھنی ہیں ، کسے جانے دینا ہے کسے روکنا ہے ، طبی امراض کے مراکز کہاں تک سچ بول رہے ہیں ، کس سے ملیں اور کس سے نا ملیں ، مرنے والوں کی تدفین میں کیسے شرکت کریں ، کسی بیمار کو ہسپتال لیکر جائیں یا پھر مرنے کیلئے گھر پر ہی رکھ لیں، بچوں کو کہاں تک قید و بند میں رکھیں ، انہیں کہاں تک موبائل ، ٹیلیویژن اور کمپیوٹر سے دور رکھیں، گھریلو زندگی کو معمول پر کیسے لائیں ، دفتر جائیں کہ نا جائیں، کاروبار مسلسل نقصان میں جارہا ہے ، معلوم نہیں تنخواہ آئے گی کے نہیں، وفاقی حکومت کچھ کہہ رہی ہے کچھ کر رہی ہے یہاں سندھ حکومت کچھ کہہ رہی ہے اور کچھ کررہی ہے ،آخر ہم دنیا سے مختلف کیوں سوچ رہےں، اس طرح کہ سوالات ایک کے بعد ایک ذہن میں اٹھتے رہتے ہیں اور جواب ہے کہ کسی کے پاس نہیں ہے ۔ سچ پوچھیں تو ایسا لگ رہا ہے کہ کوئی ڈراﺅنی فلم چل رہی ہے اور ساری کی ساری دنیا آسیب زدہ ہوگئی ہے ، کوئی عامل یا کوئی عالم بھی اس آسیب سے نجات دلانے کا دعوی کرتا نہیں سنائی دے رہا ، سب سے بڑھ کر سائنس بھی اپنا سر پکڑ کر بیٹھی ہوئی ہے ۔
عام آدمی جب کسی مشکل میں گرفتا ہوتا ہے تو وہ کسی خاص آدمی سے رجوع کرتا ہے لیکن آج تو خاص آدمی سجھائی ہی نہیں دیتا ، سب ہی عام سے عام ترین ہوئے ہیں کہ اس سے نہیں ملنا، اس سے نہیں ملنا ، یہ کرنا ہے تو وہ کرنا ہے ۔ مسلسل تذبذب کی کیفیت ہے گوکہ لوگ ایک دوسرے کا سہارا بننے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن سہارا نہیں بن پارہے ایسے میں سوائے اللہ رب العزت کے کوئی سہارا سجھائی نہیں دے رہا ۔ہمارے علمائے کرام نے ہر ممکن کوشش کی کہ وہ حکومتی اقدامات کی بالادستی کو یقینی بنائیں انکی بدولت عوام رمضانوں میں بھی گھروں میں عبادات کرتے رہے یہ علماءکرام ہی تھے کہ جن کی بدولت قوم کو صبر و تحمل سے طے شدہ طریقہ کار پر عمل کرتے رہنے کی تلقین کرتے رہے لیکن پھر کیا ہوا کہ حکومت وقت نے دہرے میعار کا مظاہرہ کرتے ہوئے یوم علی ؓ پر ہونے والے اجتماعوں اور جلوسوں کو روکنے میں مکمل ناکامی کا ثبوت پیش کیایا پھر طرفداری کی روایت برقرار رکھی ، جو اس بات کا جواز بنا کہ علمائے کرام نے کسی بھی قسم کی مذہبی اجتماعی عبادت کرنے کی عام اجازت دے دی اور حکومت کے اس دہرے روئیے کی بدولت حکومت کے کسی بھی ایسے اقدام کی قطعی مخالفت کا اعلان کردیا جو عبادت میں خلل کا باعث بنے ۔
گوکہ رمضان المبارک ختم ہوگئے اور پاکستانی قوم نے عید کی نماز کے اجتماعات کا بھرپور اہتمام کیا اور عید کسی حد تک اپنے طریقے سے منائی۔ ہر قسم کی تعلیمی سرگرمیاں گزشتہ تین ماہ سے موقوف ہیں ، بچوں کیلئے تفریح گاہیں مکمل بند ہیں لوگوں سے رابطہ کیلئے ویسے ہی سختی سے منع کیا جا رہاہے اور سب سے بڑھ کر ذاتی احتیاط پر بھرپور توجہ دلائی جا رہی ہے یعنی ایک قید ِ مسلسل ہے اور خصوصی طور پر بزرگوں اور بچوں کیلئے جنہیں ویسے ہی سب سے زیادہ گھروں سے باہر گھومنے پھرنے کا شوق ہوتا ہے ۔ اب یہ بچے مسلسل روک ٹوک کا شکار ہیں لاکھ سہولیات فراہم کرلیں اس بات کا اندازہ اب ہوتا جا رہاہے کہ قید قید ہی ہوتی ہے ۔ کرونا کے پہنچنے والے نقصانات کی دو بڑی وجوہات ہیں پہلی جس کا نتیجہ ترقی یافتہ ممالک بھگت رہے ہیں وہ یہ کہ اپنی ترقی پر حد سے زیادہ انحصار یا پھر دوسرے لفظوں میں تکبر جبکہ ترقی پذیر اور تیسری دنیا کے ممالک نے تعلیم کی عدم دستیابی کی وجہ سے نقصانات اٹھارہے ہیں یعنی پاکستان جیسے ممالک تعلیم جس سے سہی سمجھ اور آگہی میسر آتی ہے نا ہونے کے برابر ہے ۔ پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان صاحب نے پہلے دن سے اس بات پر زور دیا کہ مکمل بندش (لاک ڈاﺅن) نہ کیا جائے کیونکہ ہم چین ، کنیڈا ، سنگاپور جیسا لاک ڈاﺅن برداشت ہی نہیں کرسکتے، ایک طرف ہمارے لوگ بھوک سے مرنے لگیںگے تو دوسری طرف چھوٹے چھوٹے گھروں میں افراد کی زیادہ تعداد ہے جس کی وجہ سے بھی شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے ۔
ہم اپنی طبی سہولیات کی دستیابی سے بھی خوب اچھی طرح واقف ہیں اور طبی عملے کو میسر سہولیات کا خوب اندازہ ہے ، اب جیسا کہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ ہمارے طبیب بھی کرونا کے مرض میں مبتلاءہوکر موت کو گلے لگا رہے ہیںجو کہ انتہائی تشویش ناک بات ہے ۔ کرونا وائرس کی وجہ سے کچھ خود کشی کے واقعات بھی منظر عام پر آئے لیکن سرکاری بندشوں کی قد غن کی بدولت اب خبریں بہت دیکھ بھال کر پیش کی جارہی ہیں جس کی وجہ لوگوں میں خوف و ہراس کو بڑھنے سے روکا جائے ۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ اس وائرس کی ترسیل کب کہاں کیسے ہوجائے ہماری سوچ سے ماورا ءہے ہمارے بس میں صرف احتیاط ہے جوکہ ہم کر نہیں رہے ، لوگ ہاتھ بھی ملا رہے ہیں لوگ گلے بھی مل رہے ہیں اور لوگ ماسک پہننا شائد اپنی توہین سمجھ رہے ہیں۔ اس حوالے سے ایک مصدقہ حوالہ دینا چاہونگا جوکہ ہمارے پڑوسی ملک کے شہر کیرالہ کا ہے جہاں دو افراد میں کرونا وائرس کی تصدیق ہو گئی جس کے بعد وہاں کی حکومت نے ماسک اور سماجی فاصلے کو لازمی قرار دے دیا بغیر کسی بندش کے وہاں تاوقتِ تیسرا کیس نہیں آیا تھاجب وہاں کے ایک ذمہ دار سے اس حوالے سے پوچھا گیا تو انہوں نے بتایا کہ کیرالہ میں تعلیمی شرح چھیانوے فیصد ہے جب سرکار نے حکم دیا کہ ماسک پہننا ہے تو سب نے ماسک پہن لیا اور سماجی فاصلے سے کام کرتے رہے جیسا کہ ایک تعلیم یافتہ معاشرے سے توقع کی جاسکتی ہے ۔
کوئی اس بات پر بات کرنے کیلئے بھی تیا ر نہیں کہ ہمیں اس کرونا کیساتھ کب تک رہنا ہے کیونکہ ابھی تک سب اس سے نمٹنے کی کوششوں میں مصروف عمل ہیں اور سب سے بڑھ کر وہ ملک جس سے دنیا خوفزدہ رہتی ہے اور ہر معاملے کی رہنمائی کیلئے درپردہ امریکہ کی طرف ہی دیکھتی ہے، دنیا کو الجھا نے کی کوشش میں خود ہی بری طرح سے الجھ گیا ہے اور ابتک لاکھوں انسانی جانیں کرونا کی بھینٹ چڑھا چکا ہے ابھی یہ سلسلہ ختم نہیں ہو پایا تھا کہ نسلی فسادات نے آگہرا ہے ، جس کی وجہ سے یقینا کرونا کو تقویت ملے گی کیوں کہ احتجاج ہر گلی محلے میں شروع ہوچکے ہیں اور بغیر کسی سماجی فاصلے کہ یہ عمل زور پکڑ چکا ہے۔ ابھی اس بات پر بھی دنیا نے خاموشی اختیار کر رکھی ہے کہ کرونا کسی حتیاتی جنگ کا آغاز تو نہیں کر دیا گیا ہے کہ جس میں اسلحہ و بارود تواستعمال نہیں ہونگے لیکن انسانی جانیں بے دریغ ضائع ہونگی۔ مذکورہ بالہ تمام گفتگو سوالوں پر مشتمل ہے اور کسی سوال کا حتمی جواب موجود نہیں جیسا کہ کرونا کی ویکسین تقریباً ڈیڑھ سال میں منظر عام پر آنے کا کہا جا رہا ہے اسی طرح سے ان سوالوں کے جواب بھی وقت کیساتھ ساتھ ملنا شروع ہو جائیں گے لیکن ایک خوفناک حقیقت آپ کے سامنے پیش کر رہا ہوں کہ لوگ آہستہ آہستہ ذہنی مریض بنتے چلے جائیں گے، جتنی تیزی سے کرونا نے تباہی مچائی ہے اسکی وجہ سے جو لوگ بچ گئے ہیں ان میں سے کثیر تعدا د ذہنی مرض میں مبتلاءہوجائے گی۔ اگر اس سے بچنا ہے تو ابھی سے خوف و ہراس کی فضاءکو قابو میں کرنے کی کوشش کرنا ہوگی۔ ایک طر ف لوگ کرونا سے مر رہے ہیں تو دوسری طرف کرونا ذہنی مریض بنانے میں بھی آگے آگے لایا جا رہاہے ۔ اس ذہنی دباﺅ کا شکار سب سے زیادہ ہماری نئی نسل نے ہونا ہے جسکے سدباب کیلئے ہمیں انتہائی اقدامات اٹھانے ہوں گے۔ وزیر اعظم صاحب اس جانب بھی توجہ دیں۔