More than 100 Afghan security forces killed by Taliban since takeoverتصویر سوشل میڈیا

اقوام متحدہ:(اے یو ایس ) اقوامِ متحدہ نے کہا ہے کہ طالبان کے اگست میں ملک پر کنٹرول کے بعد سے اب تک مصدقہ طور پر 100 سے زائد ماو¿رائے عدالت ہلاکتوں میں ملوث ہونے کا الزام ہے۔ ان میں سے زیادہ تر ہلاکتیں سخت گیر اسلام نواز گروپ کے ہاتھوں ہوئی ہیں، جو کم عمر لڑکوں کو بھرتی کر رہا ہے اور خواتین کے حقوق چھینے جا رہے ہیں۔عالمی ادارے کے انسانی حقوق کی معاون ہائی کمشنر، ندا النشیف نے گذشتہ روز انسانی حقوق کی کونسل سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ داعش خراسان سے تعلق رکھنے والے کم از کم 50 مشتبہ ارکان کو پھانسیاں دی گئیں یا ان کے سر قلم کیے گئے۔ داعش خراسان طالبان کا نظریاتی مخالف ہے۔انھوں نے بتایا کہ اگست سے اب تک کم از کم آٹھ سرگرم افغان کارکنوں اور دو صحافیوں کو ہلاک کیا گیا ہے۔

جنیوا میں قائم اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کی کونسل کی اہل کار نے بتایا کہ عالمی ادارے کو اطلاعات موصول ہوئی ہیں کہ 59 افراد کو غیر قانونی طور پر زیر حراست رکھا گیا ہے۔انھوں نے مزید کہا کہ افغان ججوں، استغاثہ اور وکلا، خاص طور پر قانونی پیشوں سے وابستہ خواتین کے تحفظ کا معاملہ پریشانی کا باعث ہے۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ وہ طالبان کی جانب سے اقتدار میں آنے کے بعد عام معافی کے اعلان کے باوجود ماورائے عدالت ہلاکتوں کی اطلاعات کے باعث تشویش میں ہیں۔انہوں نے کہا کہ اگست سے نومبر کے درمیان ہمیں ایک سو سے زائد قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں کے اہلکاروں اور سابقہ حکومت سے تعلق رکھنے والے افراد کی ہلاکتوں کی اطلاعات موصول ہو چکی ہیں۔ جن میں سے ?72 ہلاکتوں کے بارے میں اطلاعات ہیں کہ یہ مبینہ طور پر طالبان کے ہاتھوں ہوئی ہیں۔

دوسری جانب طالبان کی وزارتِ خارجہ کے ترجمان عبدالقہر بلخی نے سابق انتظامیہ کے اہلکاروں پر مظالم کے الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ طالبان حکومت عام معافی کے اعلان پر قائم ہے۔انہوں نے کہا کہ عام معافی کے اعلان کے برخلاف عمل پر کارروائی کی جائے گی اور اس قسم کے واقعات کی مکمل تفتیش کی جائے گی تاہم غیر مصدقہ افواہوں پر توجہ نہیں دینی چاہیے۔ندا النصحیف نے افغانستان کی صورتِ حال پر اقوامِ متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کی چیف مشیل بیچلٹ کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ طالبان کے مخالف گروہ داعش خراسان کے بہت سے جہادی بھی گزشتہ دنوں میں مارے گئے ہیں۔مشیل بیچلٹ کے مطابق ننگرہار صوبے میں پچاس سے زیادہ افراد کی ماورائے عدالت ہلاکتوں کی اطلاعات ہیں جن کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ ان کا تعلق داعش خراسان سے تھا۔

انہوں نے کہا کہ ایسی اطلاعات ہیں کہ ان علاقوں میں عوامی طور پر پھانسی، سر قلم کرنے اور عوامی طور پر لاشوں کے دکھانے کے واقعات سامنے آئے ہیں۔ایمنسٹی انٹرنیشنل کی بدھ کو سامنے آنے والی ایک رپورٹ میں بھی الزام لگایا گیا ہے کہ طالبان نے نسلی اور مذہبی اقلیتوں کے ارکان، سابقہ افغان فوجیوں اور مبینہ طور پر سابق حکومت کے ہمدردوں کو جولائی اور اگست کے دوران تشدد کا نشانہ بنایا ہے جب کہ اس دوران بعض ہلاکتیں بھی ہوئی ہیں۔ادارے کے مطابق ان ہلاکتوں کے بارے میں تفصیلات موجود نہیں ہیں۔اقوامِ متحدہ کے مطابق دو کروڑ تیس لاکھ سے زائد افغان شہری، جو ملک کی تقریباً آدھی آبادی بنتی ہے آئندہ سردی کے مہینوں میں خوراک کی شدید قلت کے خطرے سے دوچار ہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *