جنیوا: ( اے یو ایس ) یورپ کے کئی ملکوں نے حفاظتی خدشات کے باعث برطانوی دوا ساز کمپنی ایسٹرازینیکا اور آکسفورڈ یونیورسٹی کی مشترکہ طور پر تیار کردہ ویکسین کا استعمال روک دیا ہے۔پیر کو جرمنی، فرانس، اٹلی اور اسپین نے بعض افراد کو ویکسین دیے جانے کے بعد ا±ن کے خون جمنے اور خون کے نمونے متاثر ہونے کی شکایات سامنے آنے پر ایسٹرازینیکا کی ویکسین کا استعمال روکنے کا اعلان کیا۔بعض ملکوں نے شکایت کی تھی کہ ویکسین لگانے کے بعد مریضوں کے خون کے سفید خلیوں کی تعداد میں تشویش ناک حد تک کمی واقع ہو رہی ہے جب کہ بعض کیسز میں مریضوں کا خون بہنا شروع ہو گیا تھا۔
تاہم دوا ساز کمپنی اور عالمی ریگولیٹرز کا کہنا ہے کہ ایسے کوئی شواہد نہیں ملے جس کی بنا پر یہ کہا جا سکے کہ ویکسین سے لوگ متاثر ہو رہے ہیں۔پاکستان میں ایک ہیلتھ ورکر کو چین کی تیار کردہ ویکسین لگائی جا رہی ہے۔ فروری 3، 2021۔ایسٹرازینیکا کا کہنا ہے کہ اسے ویکسین پر کوئی تحفظات نہیں اور لوگوں کی حفاظت سے متعلق ڈیٹا پر نظرِ ثانی کے باوجود مریضوں کے خون کے نمونے متاثر ہونے کے کوئی شواہد نہیں ملے۔یاد رہے کہ جرمنی، فرانس اور اٹلی سے قبل ڈنمارک اور ناروے نے گزشتہ ہفتے ویکسین کے ری ایکشن کی شکایت کا اظہار کرتے ہوئے اس کا استعمال روک دیا تھا۔آئس لینڈ اور بلغاریہ نے آسٹرازینیکا کے خلاف قانونی چارہ جوئی شروع کر دی ہے جب کہ آئرلینڈ اور نیدر لینڈ نے اتوار کو ویکسین مہم کی منسوخی کا اعلان کیا تھا۔عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے اقوام سے اپیل کی ہے کہ وہ ویکسی نیشن مہم کو نہ روکیں جب کہ ادارے نے اپنے مشاورتی پینل سے کہا ہے کہ وہ فوری طور پر ویکسین کے نقصان دہ ہونے کی شکایات کا جائزہ لے اور اپنی تجاویز پیش کرے۔
عالمی ادارہ صحت کی مشاورتی کمیٹی کا اجلاس منگل کو متوقع ہے جس میں ویکسین کی افادیت پر بات چیت کی جائے گی۔ڈبلیو ایچ او کے چوٹی کے سائنس دانوں نے اس بات پر زور دیا ہے کہ کرونا ویکسین سے اموات کا کوئی ایک کیس بھی سامنے نہیں آیا ہے۔ڈبلیو ایچ او کے سائنس دانوں پر مشتمل ٹیم کی سربراہ سومیا سوامیناتھن کا کہنا ہے کہ “ہمیں لوگوں کو افراتفری کا شکار نہیں کرنا چاہیے۔ جن ملکوں سے ویکسین کی شکایت سامنے آ رہی ہے وہاں اب تک ویکسین سے لوگوں کے متاثر ہونے کا تعلق ثابت نہیں ہو سکا ہے۔”ادھر یورپ کے بعض ملکوں کے تحفظات کے باوجود کئی ملکوں میں ایسٹرازینیا کی کرونا ویکسین لگائی جا رہی ہے۔تھائی لینڈ کے وزیرِ اعظم پرایوتھ چن اوچا نے منگل کو ایسٹرازینیکا کی ویکسین کی پہلی خوراک لی اور بعد ازاں میڈیا نمائندوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ٹیکہ لگائے جانے کے بعد وہ بہتر محسوس کر رہے ہیں۔دریں اثنا عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے اقوام سے اپیل کی ہے کہ وہ ویکسی نیشن مہم کو نہ روکیں جب کہ ادارے نے اپنے مشاورتی پینل سے کہا ہے کہ وہ فوری طور پر ویکسین کے نقصان دہ ہونے کی شکایات کا جائزہ لے اور اپنی تجاویز پیش کرے۔عالمی ادارہ صحت کی مشاورتی کمیٹی کا اجلاس منگل کو متوقع ہے جس میں ویکسین کی افادیت پر بات چیت کی جائے گی۔
ڈبلیو ایچ او کے چوٹی کے سائنس دانوں نے اس بات پر زور دیا ہے کہ کرونا ویکسین سے اموات کا کوئی ایک کیس بھی سامنے نہیں آیا ہے۔ڈبلیو ایچ او کے سائنس دانوں پر مشتمل ٹیم کی سربراہ سومیا سوامیناتھن کا کہنا ہے کہ “ہمیں لوگوں کو افراتفری کا شکار نہیں کرنا چاہیے۔ جن ملکوں سے ویکسین کی شکایت سامنے آ رہی ہے وہاں اب تک ویکسین سے لوگوں کے متاثر ہونے کا تعلق ثابت نہیں ہو سکا ہے۔”اس معاملہ میں سوشل میڈیا بھی سرگرم ہو گیا ہے اور فیس بک، انسٹاگرام، اور ٹوئٹر جیسے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز نے کہا ہے کہ وہ ویکسین سے متعلق غلط معلومات کے خلاف مہم شروع کر رہے ہیں۔خبر رساں ادارے ‘اے پی’ کے مطابق سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر عرصے سے ویکسین مخالف پراپیگنڈہ کھلے عام کیا جاتا رہا ہے، جس کی وجہ سے ان خیالات کا تدارک آسان نہیں ہوگا۔ٹوئٹر نے رواں ماہ اعلان کیا تھا کہ وہ کرونا وائرس کی مختلف ویکسینز کے بارے میں گمراہ کن معلومات کو اپنے پلیٹ فارم سے ہٹا دے گا۔اس سے پہلے کرونا وائرس کے بارے میں گردش کرنے والے ‘سازشی نظریات’ پر بھی کمپنی کی یہی پالیسی رہی ہے۔ لیکن اپریل 2020 سے اب تک اس بارے میں غلط معلومات پر مبنی محض 8400 ٹوئٹس ہی ہٹائی جا سکی ہیں۔عالمی وبا کے بارے میں لاکھوں اکاو¿نٹ رکھنے والے کئی مشہور اکاو¿نٹس کی جانب سے غلط معلومات پھیلائی جاتی رہی ہیں۔