Muslim bodies mixed reactions over Saudi's statement against Tablighi Jamaatتصویر سوشل میڈیا

نئی دہلی: تبلیغی جماعت کو دہشت گردی کے راستے پر ڈالنے والا ایک راستہ قرار دے کر اس پر پابندی عائد کرنے کے سعودی عرب کے فیصلے پر مسلم طبقات میں ملا جلا ردعمل ظاہر کیا جارہا ہے۔ کوئی اس کی کھل کر مخالفت کرتے ہوئے اس کی مذمت کر رہا ہے تو کوئی اس فیصلے کو درست قرار دے کر اس کا خیرمقدم کر رہا ہے اور کچھ اسے سیاسی فیصلہ بتارہے ہیں تو کوئی اس پر تبصرہ کرنے کو قبل ازوقت قرار دے رہا ہے۔

دارالعلوم دیوبند کے مہتم و شیخ الحدیث مولا نا مفتی ابوالقاسم نعمانی نے مملکت سعودی عربیہ کے ذریعہ تبلیغی جماعت کے خلاف مہم جوئی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ حضرت مولانامحمد الیاس دار العلوم کے صدر المدرسین شیخ الہند حضرت مولانا محمودحسن کے تلامذہ میں سے تھے ، انہوں نے تبلیغی جماعت قائم کی جس کے تحت اکابر کی مخلصانہ جد و جہد دینی وملی اعتبار سے مفید رہی ہے۔ انھوں نے کہا کہ جزوی اختلافات کے باوجود جماعت اپنے مشن پر کام کر رہی ہے کم و بیش تمام عالم میں اس کا کام پھیلا ہوا ہے اس سے وابستہ افراد اور جماعت کے مجموعی مزاج پر شرک و بدعت اور دہشت گردی کا الزام قطعی بے معنی اور بے بنیاد ہے۔

مفتی ابو القاسم نعمانی نے کہا کہ دار العلوم دیوبند اس کی مذمت کرتا ہے اور حکومت سعودی عربیہ سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ اس سلسلے میں اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرے اور تبلیغی جماعت کے خلاف اس قسم کی مہم سے اجتناب کرے۔دوسری جانب بریلی میں درگاہ اعلیٰ حضرت سے وابستہ تنظیم علماءاسلام کے قومی جنرل سکریٹری مولانا شہاب الدین نے سعودی عرب کے اس فیصلے کو درست قرار دیتے ہوئے اس کا خیرمقدم کیا اور کہا کہ تبلیغی جماعت کے لوگ گاؤں دیہات کا دورہ کرتے ہیں اور صوم و صلوٰة کی تلقین کرنے کی آڑ میں لوگوں کے ذہنوں میں زہر گھولتے ہیں اور ان کی سرگرمیاں انتہاپسندانہ فکر کی آبیاری کرتی ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ دیگر مسلم ممالک کو بھی اپنے یہاں تحقیات کرنی چاہئیں۔

لکھنؤ میں عیش باغ عید گاہ کے امام مولانا خالد رشید فرنگی محل نے کہا کہ اسلامی معاملات پر سعودی عرب میں بیانات جاری ہوتے رہتے ہیں لیکن ابھی تک ایسا کوئی بیان جاری نہیں ہوا ہے۔ایسی صورت حال میں فی الحال اس پر کوئی تبصرہ کرنا مناسب نہیں ہوگا۔ ہمیں اس ضمن میں انتظار کرنا چاہئے۔مونڈ والی مسجد لکھنؤ کے امام مولانا فضل منان نے بھی کہا کہ اس قسم کا کوئی اعلان کسی بڑے عالم دین نے نہیں کیا ہے اور ابھی تک مجھے اس کا علم بھی نہیں ہے۔قاضی شہر مولانا ابوالعرفان میاں فرنگی محل نے بھی کہا کہ سعودی عرب سے جوبھی خبر یں آرہی ہیں غیر مصدقہ ہیں۔جب تک کوئی اسلامی رہنما اس قسم کا کوئی بیان جاری نہیں کرتا اس ضمن میں کچھ کہنا فضول ہے۔کشمیر کے مفتی اعظم مفتی ناصر الاسلام نے کہا کہ یہ سعودی عرب کا اندرونی معاملہ ہے ۔یہ کوئی مذہبی فتویٰ نہیں ہے یہ محض ایک سیاسی فیصلہ ہے۔قابل ذکر ہے کہ گذشتہ جمعہ کو سعودی عرب کی وزارت مذہبی امور کے ذریعے وہاں کی مساجد کے خطیبوں کو یہ ہدایت دی گئی تھی کہ تبلیغی جماعت کی مبینہ گمراہیوں کے خلاف خطبہ دیں۔ اس فرمان میں اس جماعت اور اس کی دعوت کو دہشت گردی کے دروازوں میں سے ایک دروازہ بھی قرار دیا گیا تھا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *