تحریر : محمد ریاض ایڈووکیٹ
گذشتہ چند برسوں سےخواتین کے عالمی دن کے موقع پر “میرا جسم میری مرضی” جیسے مستانے نعرے سننے کو مل رہے ہیں۔ پاکستانی معاشرہ میں ان نعروںپر طرفین کی جانب سے شدید الفاظی بمباری اور اپنی اپنی تشریحات کی جاتی ہیں۔اسی طرز پر موجودوہ حالات میں حکومتی اور اپوزیشن سیاسی جماعتوں کے ساتھ ساتھ پاکستان کے آئینی اداروں الیکشن کمیشن اورعدلیہ کی جانب سے آئین پاکستان کی من مانی تشریحات منظر عام پر آرہی ہیں۔ ایک طرف عدالت عظمی کی جانب سے پارلیمنٹ کے لئے حکم نامہ جاری ہوتا ہے کہ وہ سپریم کورٹ پروسیجر بل بارے مجلس شورہ کی کاروائیوں کا ریکارڈ سپریم کورٹ میں پیش کرے۔ جبکہ آئین کے ا آرٹیکل 69 میں درج ہے کہ عدالتیں پارلیمنٹ کی کارروائی کے بارے میں انکوائری نہیں کرسکتی۔ دوسری جانب پارلیمنٹ کی جانب سے عدالت عظمی کے رجسٹرار کو گذشتہ دس سال کے مالی ریکارڈ کے ساتھ پارلیمنٹ کی پبلک اکاونٹس کمیٹی کے روبروہ پیش ہونے کا حکم جاری کیا جاچکا ہے بصورت دیگر رجسٹرار سپریم کورٹ کو آئین کے آرٹیکل 66 کی کلاز نمبر 3 کے تحت وارنٹ اور سزا سنانے کی وارننگ دی جاری ہے۔ آئین کے ا?رٹیکل 68 کے تحت پارلیمنٹ میں سپریم کورٹ یا ہائی کورٹ کے کسی جج کے فرائض کی ادائیگی میں طرز عمل کے حوالے سے کوئی بحث نہیں کی جائے گی، جبکہ اسکے بالکل برعکس پارلیمنٹ کے اجلاسوں میں سپریم کورٹ کے ججز کے خلاف ہر روز 31 توپوں کی سلامیاں دی جارہی ہیں۔
آئین پاکستان کے آرٹیکل 224کی کلاز 2کے تحت اسمبلی تحلیل کی صورت میں عام انتخابات کا انعقاد90دن میں ہونا لازمی ہے۔ نہ جانے پی ڈی ایم حکمران اتحاد آئین کے کس آرٹیکل کے تحت 90روز میں انتخابات نہ کروانے پر بضد نظر آ رہا ہے۔لیکن آئین پاکستان میں کہیں درج نہیں ہے کہ پارٹی چیئرمین جو ممبر اسمبلی بھی نہ ہوصرف اسکی منشا پر وزیراعلیٰ یا وزیراعظم آنکھ جھپٹتے اسمبلی کواپنی آئینی مدت پوری کئے بناہی تحلیل کردے۔یاد رہے صوبائی اسمبلی انتخابات کے کیس کی سماعت کے موقع پر جسٹس اطہر من اللہ نے بہت ہی اہم نکتہ ا±ٹھایا تھا کہ ہمیں اس بات پر غور کرنے کی اشد ضرورت ہے کہ پنجاب اور خیبر پختونخواہ اسمبلیوں کی تحلیل کرنے کی وجوہات کیا ہیں؟حد تو یہ ہے سپریم کورٹ کے پنجاب و خیبرپختونخواہ اسمبلیوں سے متعلق کیس کے فیصلہ میں بھی عجیب وغریب صورتحال دیکھنے کو ملی۔ سپریم کورٹ ایک جانب 90روز کے اندر پنجاب میں انتخابات کے لئے اپنے حکم نامہ میں الیکشن کمیشن کے لئے مکمل شیڈول بھی مہیا کرتی ہے مگر خیبر پختونخواہ اسمبلی انتخاب کے مسئلہ کو مناسب فورم پرمعاملہ اٹھانے کا حکم جاری کرتی ہے۔ نہ جانے سپریم کورٹ کے تین رکنی ہم خیال بینچ نے آئین کے کس آرٹیکل کے تحت 14مئی الیکشن شیڈول جاری کیا؟۔
یاد رہے چیف جسٹس کے ہم خیال تین رکنی بینچ کے خلاف سپریم کورٹ کے 4ججز اختلافی فیصلہ دے چکے ہیں۔ سوال یہ پید ا ہوتا کہ آئین پاکستان کے تحت 3رکنی بینچ کا فیصلہ ماننا چاہیے یا پھراختلاف کرنے والے 4ججز کا فیصلہ؟کتنا حیران کن امر ہے کیا صوبہ پنجاب اسمبلی کے لئے 90روز میں انتخابات کا انعقادہی آئینی تقاضہ ہے؟ یہ بہت بڑا سوالیہ نشان ہے کہ سپریم کورٹ کی جانب سے خیبر پختونخواہ اسمبلی کے انتخابات کے لئے پنجاب اسمبلی طرز پر شیڈول کیوں جاری نہ کیا گیا؟ آئین پاکستان کے باب نمبر 2میں مالیاتی طریق کار کے متعلق آرٹیکل نمبر 75سے آ رٹیکل نمبر 88تک واضح ہدایات موجود ہیں جس میں تمام تر اختیارات قومی اسمبلی کے تابع وفاقی حکومت کے پاس ہونگے، یعنی قومی اسمبلی کے پاس کلی اختیار حاصل ہوگا کہ وہ کسی مالیاتی بل کو منظور کرے یا پھر مسترد۔ نہ جانے سپریم کورٹ نے آئین پاکستان کے کس ا?رٹیکل کے تحت سٹیٹ بینگ اور وزارت خرانہ کے ذمہ درارن کو حکم نامہ جاری کیا کہ وہ انتخابات کے لئے 21ارب روپے الیکشن کمیشن کو دیں۔ آئین پاکستان کے آرٹیکل 175کی کلاز 3میں واضح طور پر درج ہے کہ ا آئین پاکستان کے نافظ العمل ہونے کے 14سالوں کے اندر عدلیہ کو انتظامیہ یعنی حکومتی انتظامی مشینری سے علیحدہ کردیا جائے گا۔ نہ جانے یہ 14سال کب پورے ہونگے کہ ہماری عدلیہ انتظامی امور میں مداخلت ختم کرے گی۔
ایک طرف معزز چیف جسٹس سپریم کورٹ سیاسی جماعتوں کو مل بیٹھ کر مذاکرات کرنے کی ہدایات جاری کررہے ہیں جبکہ اسکے بالکل برعکس خود سپریم کورٹ میں واضح دھڑے بندی نظر آرہی ہے۔ آئین کے آرٹیکل 190کے تحت پاکستان بھر میں تمام انتظامی اور عدالتی حکام سپریم کورٹ کی مدد میں کام کریں گے۔لیکن سوال یہ بھی پیدا ہوتا کہ کیا سپریم کورٹ صرف چیف جسٹس یا انکے ہم خیال ججز پر مشتمل ہے؟کیونکہ سپریم کورٹ کے ججز کی اکثریت چیف جسٹس اورہم خیال ججز سے اختلاف کرتی نظر آتی ہے۔ تو ایسی صورت میں ملک بھرکے انتظامی حکام و پارلیمنٹ کس طرح ہم خیال بینچ کے فیصلوں پر عملدرآمد کریں گے؟ اور معزز چیف جسٹس سپریم کورٹ اپنے ساتھی سینئر ترین ججوں کو اپنے ساتھ بٹھانے کےلئے روادار نظر نہیں آتے۔ حیرانی اس بات پر ہورہی ہے کہ معزز چیف جسٹس صاحب کو صرف صوبہ پنجاب کے انتخابات کی فکر لاحق ہے ، جبکہ صوبہ خیبرپختونخواہ اسمبلی اور خود انکے اپنے ادارے کی 2 ججز کی اسامیاںخالی ہیں۔ او اسامیاں پ±ر نہ ہونے کی بنا پر آئین کے آرٹیکل 175-Aکے تحت جوڈیشل کونسل ا?ف پاکستان کا اجلاس طلب کرنے کے لئے سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج قاضی فائز عیسی چیف جسٹس صاحب و کونسل کے دیگر ممبران کوخط لکھنے پر مجبور ہوئے۔۔ افسوس ا?ئین پاکستان میں درج بنیادی انسانی حقوق و ریاست کی ذمہ داریوں کے حوالہ سے آرٹیکل8سے لیکر ا?رٹیکل 40تک کے معاملات کی شاید کسی کو فکر لاحق نہیں ہے۔ طرفین کی جانب سے” میرا آئین میری مرضی” والا نعرہ مستانہ سننے دیکھنے کو مل رہا ہے۔ایک بات تو طے شدہ ہے کہ چیف جسٹس اور انکے بینچ کی جانب سے 14مئی انتخابات کے حکم نامہ نے سپریم کور ٹ ، الیکشن کمیشن ،پارلیمنٹ و دیگر ریاستی اداروں کو بند گلی کی طرف دھکیل دیا ہے، جسکی بدولت تقریبا تمام ادارے ایک دوسرے کے خلاف برسرپیکار نظر ا آرہے ہیں۔