میانمار: (اے یو ایس ) میانمار کے دارالحکومت نیپیداو میں عوامی مظاہروں پر عائد پابندیوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے احتجاج کرنے والے ہزاروں افراد کو منتشر کرنے کے لیے پولیس نے ربڑ کی گولیاں چلائیں۔ملک میں فوج کے اقتدار سنبھالنے پر احتجاج کرنے والوں کے خلاف پولیس نے تیز دھار پانی اور آنسو گیس کا استعمال بھی کیا لیکن آتشیں اسلحے کے استعمال کی خبروں کی تصدیق نہیں ہو سکی ہے۔ان مظاہروں میں سر پر شدید ضرب لگنے سے زخمی ہونے والی ایک خاتون کی حالت نازک بتائی جاتی ہے اور وہ ہسپتال میں زندگی اور موت کی جنگ لڑ رہی ہیں۔میانمار جہاں فوجی اقتدار کی ایک طویل تاریخ رہی ہے وہاں گزشتہ ہفتہ منتخب حکومت کو ہٹا کر فوج کے اقتدار سنبھالنے کے خلاف عوامی مظاہرے شروع ہو گئے ہیں۔ملک میں عوامی مظاہروں کا یہ مسلسل چوتھا دن تھا۔ عوامی اجتماعات پر پابندی لگا دی گئی ہے اور ملک کے مختلف شہروں میں رات کا کرفیو نافذ کر دیا گیا ہے۔
دریں اثنا فوجی رہنما من آنگ ہیلانگ نے خبردار کیا کہ کوئی بھی شخص قانون سے بالاتر نہیں ہے۔یہ مظاہرین فوجی بغاوت کے خلاف احتجاج کے ساتھ ساتھ ملک کی مقبول ترین رہنما آنگ سان سوچی اور ان کی جماعت نینشل لیگ فار ڈیموکریسی پارٹی (این ایل ڈی) کی رہائی کا مطالبہ بھی کر رہے ہیں۔ آنگ سان سوچی اور ان کی جماعت کے تقریباً تمام منتخب ارکان کو فوج نے اقتدار سنبھالنے کے ساتھ ہی گرفتار کر لیا تھا۔فوجی حکومت نے اقتدار سنبھالنے کے بعد ملک میں ایک سال کے لیے ہنگامی حالت کا نفاذ کر دیا ہے اور بغیر کسی ٹھوس ثبوت کے عام انتخابات میں دھاندلی اور فراڈ کے الزامات لگاتے ہوئے ان کے نتائج کو رد کر دیا ہے۔نیپیداو میں منگل کو پولیس نے مظاہرین کو منشتر کرنے کے لیے تیز دھار پانی کا استعمال شروع کیا۔برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز نے اطلاع دی ہے کہ مشتعل مظاہرین پر تیز دھار پانی کا استعمال بے اثر ثابت ہوا اور وہ اپنی جگہ ڈٹے رہے۔مظاہرین کی طرف سے ’فوجی آمریت ختم کرو‘ کے نعرے بلند کیے جاتے رہے۔پولیس نے مظاہرین کو ہراساں کرنے کے لیے ہوائی فائرنگ کی اور اس کے بعد مظاہرین کو ربڑ کی گولیوں سے نشانہ بنایا۔
بی بی سی کی برما سروس نے طبی عملے میں شامل ایک اعلیٰ اہلکار سے بات کی جس نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ایک ہسپتال میں دو مظاہرین کو زخمی حالت میں داخل کروایا گیا۔ ان میں سے ایک خاتون تھی جس کو سر پر کوئی ضرب لگنے سے شدید زخم آیا تھا اور دوسرے شخص کے سینے پر زخم تھا۔ یہ واضح نہیں ہو سکا کہ یہ زخم کس وجہ سے لگے۔روئٹرز نے ایک ڈاکٹر سے بات کی جس نے بتایا کہ زخمی ہونے والی خاتون کے ایکسرے سے ظاہر ہوتا ہے کہ خاتون کے سر میں جو زخم آیا ہے وہ اصلی گولی کا ہے۔اس بات کی بھی غیر مصدقہ اطلاعات موصول ہو رہی ہیں کہ بہت سی جگہوں پر پولیس والے بھی مظاہرین میں شامل ہو گئے ہیں۔ کئی جگہوں پر پولیس والوں نے مظاہروں کو سڑکوں پر لگائی گئی چوکیوں کو عبور کرنے سے روکنے کی کوشش نہیں کی۔بی بی سی کے جنوب مشرقی ایشیا کے نامہ نگار جوناتھن ہیڈ نے کہا کہ یہ واضح ہے کہ ‘افسران’ مظاہرین کو روکنے کی پوری کوشش کر رہے ہیں۔ماضی میں 1988 اور 2007 میں فوجی آمریت کے خلاف ہونے والے عوامی مظاہروں میں متعدد شہری ہلاک ہو گئے تھے۔
ملک کے سابق دارالحکومت رنگون میں بین الاقوامی توجہ حاصل کرنے کے لیے اقوام متحدہ کے دفتر کے باہر ہونے والے ایک مظاہرے میں شامل ایک نوجوان نے بی بی سی کی برما سروس کو بتایا کہ ’یہ جانتے ہوئے بھی کہ پانچ سے زیادہ افراد کے جمع ہونے پر پابندی ہے ہم یہاں اکھٹے ہوئے ہیں۔‘ہم باہر نکلے ہیں کیونکہ ہمیں احتجاج کرنا ہے جب تک صدر اور ماں آنگ سان سوچی کو رہا نہیں کر دیا جاتا۔’ آنگ سان سوچی جنھیں لوگ احتراماً ماں کہتے ہیں ان کو گھر پر نظر بند کیے جانے کے بعد سے ان کے بارے میں کوئی اطلاع نہیں دی گئی ہے۔ایک اور خاتون نے اپنا نام ظاہر نہ کرتے ہوئے کہا کہ ‘نوجوان اس ملک کا مستقبل ہے اور وہ یہ فوجی بغاوت برداشت نہیں کر سکتے۔ ہم لڑتے رہیں گے جب تک ہم صدر اور ماں سوچی کو رہا نہیں کروا لیتے چاہے اس کی ہمیں کوئی بھی قیمت ادا کرنی پڑے۔’انھوں نے کہا کہ ملک کا نوجوان فوج سے تصادم نہیں چاہتا جیسا کے ماضی میں ہم دیکھ چکے ہیں۔آنگ سان سوچی کی بین الاقوامی سطح پر انسانی حقوق کے لیے آواز اٹھانے والی ایک رہنما کے طور پر شہرت بری طرح متاثر ہوئی ہے لیکن ملک کے اندر انھیں بدستور بہت مقبولیت حاصل ہے اور اس کا مظاہرہ گذشتہ سال ہونے والے انتخابات میں سامنے آیا تھا۔پیر کے روز ملک کے فوجی رہنما جنرل من آنگ ہیلانگ نے اقتدار سنبھالنے کے بعد قوم سے اپنے پہلے خطاب میں فوجی بغاوت کو یہ کہہ کر جائز قرار دیا کہ گذشتہ انتخابات میں فراڈ کیا گیا۔
انھوں نے ملک کے انتخابی کمیشن پر ان الزامات کی تحقیق کرانے میں ناکامی کا الزام بھی لگایا۔ملک کے انتخابی کمیشن نے ان الزامات کی تردید کی ہے اور کہا ہے وسیع پیمانے پر انتخابات میں فراڈ ہونے کا کوئی ثبوت موجود نہیں ہے۔جنرل من آنگ ہیلانگ نے انتخابی کمیشن میں اصلاحات کے بعد ایک نئے کمیشن کے تحت انتخابات کرانے کا وعدہ کیا ہے اور کہا ہے کہ فوج جیتنے والے کو اقتدار منتقل کر دے گی۔انھوں نے ملک میں ‘سچی’ اور ‘منظم’ جمہوریت لانے کا وعدہ بھی کیا جس کا فوجی بغاوت کے مخالفین کی طرف سے سوشل میڈیا پر مذاق اڑایا جا رہا ہے۔ملک میں فوج کے اقتدار سنبھالنے پر احتجاج کرنے والوں کے خلاف پولیس نے تیز دھار پانی اور آنسو گیس کا استعمال بھی کیا لیکن آتشیں اسلحے کے استعمال کی خبروں کی تصدیق نہیں ہو سکی ہے۔ان مظاہروں میں سر پر شدید ضرب لگنے سے زخمی ہونے والی ایک خاتون کی حالت نازک بتائی جاتی ہے اور وہ ہسپتال میں زندگی اور موت کی جنگ لڑ رہی ہیں۔میانمار جہاں فوجی اقتدار کی ایک طویل تاریخ رہی ہے وہاں گذشتہ ہفتہ منتخب حکومت کو ہٹا کر فوج کے اقتدار سنبھالنے کے خلاف عوامی مظاہرے شروع ہو گئے ہیں۔ملک میں عوامی مظاہروں کا یہ مسلسل چوتھا دن تھا۔ عوامی اجتماعات پر پابندی لگا دی گئی ہے اور ملک کے مختلف شہروں میں رات کا کرفیو نافذ کر دیا گیا ہے۔
دریں اثنا فوجی رہنما من آنگ ہیلانگ نے خبردار کیا کہ کوئی بھی شخص قانون سے بالاتر نہیں ہے۔یہ مظاہرین فوجی بغاوت کے خلاف احتجاج کے ساتھ ساتھ ملک کی مقبول ترین رہنما آنگ سان سوچی اور ان کی جماعت نینشل لیگ فار ڈیموکریسی پارٹی ( این ایل ڈی) کی رہائی کا مطالبہ بھی کر رہے ہیں۔ آنگ سان سوچی اور ان کی جماعت کے تقریباً تمام منتخب ارکان کو فوج نے اقتدار سنبھالنے کے ساتھ ہی گرفتار کر لیا تھا۔فوجی حکومت نے اقتدار سنبھالنے کے بعد ملک میں ایک سال کے لیے ہنگامی حالت کا نفاذ کر دیا ہے اور بغیر کسی ٹھوس ثبوت کے عام انتخابات میں دھاندلی اور فراڈ کے الزامات لگاتے ہوئے ان کے نتائج کو رد کر دیا ہے۔