میانمار(اے یو ایس ) اقوام متحدہ کے ایک سینئر ذمے دار نے میانمار میں کم از کم 35 شہریوں کی ہلاکت کے واقعے کی مذمت کی ہے۔ ساتھ ہی میانمار کے حکام سے مطالبہ کیا ہے کہ اس واقعے کی تحقیقات کرائی جائیں۔ حکمراں فوجی کونسل کی جانب سے اس واقعے پر جو 24 دسمبر کو کایاہ صوبے کے ایک گاو¿ں “مو سو” میں پیش آیا تھا، کوئی ردعمل ظاہر نہ کے جانے پر اپوزیشن نے فوج کو ہدف ملامت بنایا ۔سرکاری میڈیا نے بتایا تھا کہ فوجی اہل کاروں نے فائرنگ سے درجنوں دہشت گردوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا جن کے قبضے میں اسلحہ موجود تھا۔ ان افراد کا تعلق ان قوتوں سے ہے جو فوجی حکومت کے خلاف لڑائی میں مصروف ہیں۔ البتہ سرکاری میڈیا نے شہریوں کے جانی نقصان کے بارے میں کچھ نہیں بتایا۔
اقوام متحدہ کے جنرل سکریٹری کے معاون برائے انسانی امور مارٹن گریفتھ کے مطابق شہریوں کی ہلاکت جس میں کم از کم ایک بچہ شامل ہے ان سے متعلق رپورٹ مصدقہ ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ “میں اس خطرناک واقعے اور ملک کے مختلف علاقوں میں شہریوں کے خلاف تمام حملوں کی مذمت کرتا ہوں … اس واقعے کی جامع اور شفاف تحقیقات کرائی جائیں تا کہ مجرموں کو انصاف کے کٹہرے میں پیش کیا جا سکے”۔علاقے میں مقامی آبادی اور انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی ایک جماعت کا کہنا ہے کہ فوجیوں نے شہریوں کو ہلاک کیا۔ جماعت نے بعض تصاویر جاری کی ہیں جن میں کٹی پھٹی لاشیں دکھائی دے رہی ہیں۔ ان میں سے بعض لاشیں ایک جلے ہوئے ٹرک میں پڑی ہوئی ہیں۔میانمار میں رواں سال یکم فروری سے انارکی دیکھی جا رہی ہے جب حکومت نے اونگ سان سوچی کی حکومت کا تختہ الٹ دیا تھا۔سیاسی قیدیوں کی معاون تنظیم کے مطابق فوجی انقلاب کے بعد سے احتجاجیوں اور مسلح اپوزیشن کے خلاف کرویک ڈاو¿ں میں کم از کم 1375 افراد ہلاک ہو چکے ہیں جب یہ آٹھ ہزار سے زیادہ افراد کو قید کیا گیا۔ حکومت ان اعداد و شمار کو مسترد کرتی ہے۔