اسلام آباد: قومی احتساب بیورو کو پاکستان مسلم لیگ نواز (پی ایم ایل این) کے صدر اور قومی اسمبلی میں حزب اختلاف کے قائد و سابق وزیر اعلیٰ پنجاب میاں محمد شہباز شریف کے خلاف سپریم کورٹ میں دائر اپنی اپیلیں اس وقت واپس لینے پر مجبور ہونا پڑا جب وہ سپریم کورٹ کو اس بات پر قائل نہیں کر سکا کہ آشیانہ اقبال ہاؤسنگ اسکیم میں انہوں نے ایسا کیا کردار ادا کیا تھا جس سے ثابت ہوتا ہو کہ انہوں نے اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کیا ہے۔
نتیجہ میں بیوروکے وکیل نعیم بخاری عدالت میں گڑگڑائے کہ وہ آشیانہ ہاؤسنگ اسکیم گھپلے میں شہباز شریف کو رہا کرنے کے لاہور ہائی کورٹ کے 14فروری کے حکم اور رمضان شوگر ملز کیس میں ضمانت دینے کے اس کے 10اپریل کے فیصلے نیز ہاؤسنگ اسکیم گھپلے میں وزیر اعظم کے سابق پرنسپل سکریٹری فواد حسن فواد کو ضمانت پر رہا کرنے کے فیصلہ کے خلاف تینوں اپیلیں واپس لینا چاہتے ہیں۔اور براہ کرم ان اپیلوں پر سماعت نہ کی جائے۔
عدالت عظمیٰ کی چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی والی ایک تین ججی بنچ نے درخواست دہندہ کی جانب سے اپیلیں واپس لینے کے بعد معاملہ رفع دفع کر دیا لیکن بیورو کے وکیل نے عدالت عظمیٰ کی اس جانب توجہ بھی دلائی ہائی کورٹ کا فیصلہ احتساب عدالت میں زیر سماعت کیسوں پر اثر انداز ہوسکتا ہے۔
جس پر عدالت عظمیٰ نے کہا کہ ضمانت کی درخواستوں میں جو مشاہدات بیان کے گئے ہیں وہ عارضی ہوتے ہیں اور ذیلی عدالت میں سماعت یا تحقیقاتی ایجنسیوں کو متاثر نہیں کرتے۔
دوران سماعت سپریم کورٹ یہ سمجھنے سے قاصر تھی کہ سابق وزیر اعلیٰ پر اختیارات کے ناجائز استعمال یا کرپشن میں ملوث ہونے کا الزام کیونکر لگایا جا سکتا ہے جب بے ظابطگیوں کے الزامات جیسے ہی ان کے علم میں لائے گئے انہوں نے خود یہ معاملہ ایک کمیٹی کو اور پھر پنجاب انسداد بدعنوانی ادارے کو سونپ دیا۔چیف جسٹس نے کہا کہ پورے کیس میں سابق وزیر اعلیٰ ایک اچھی شخصیت کے روپ میں سامنے آئے ۔