NATO plans space center to counter Russia, China satellite threatsتصویر سوشل میڈیا

جنیوا ( اے یوایس ) ناٹونے اعلان کیا ہے کہ وہ اس ہفتے کیسٹر سیٹیلائٹ گراؤنڈ پر ایک نئے خلائی سینٹر کو شروع کر رہا ہے جو دنیا میں اس کی مصنوی سیاروں کے ذریعہ مواصلات اور اس کی اہم ترین عسکری تنصیبات کے انتظام میں مدد دے گا۔کیسٹلر سیٹیلائٹ گراؤنڈ اسٹیشن، نیٹو کی سپیس کمیونیکیشن کا دل ہے۔ یہ اتحاد کے تمام سٹیشنوں میں سب سے بڑا اور جدید ترین ہو گا۔گزشتہ سال دسمبر میں، ناٹوکے لیڈروں نے اعلان کیا تھا کہ بری، بحری، فضائی اور سائبرسپیس کے بعد اب خلا ان کی کاروائیوں کا “ففتھ ڈومین” ہو گا۔

جمعرات سے شروع ہونے والی نیٹو میں شامل ممالک کے وزرائے دفاع کی دو روز تک جاری رہنے والی بات چیت کے دوران،نئے خلائی سینٹر کی منظوری دی جائے گی، جس کی تعمیر ریمس ٹائین جرمنی میں قائم ناٹو کے ایئر کمان سینٹر میں گی۔

ناٹوکے سیکرٹری جنرل ینس ا سٹالٹن برگ کا اجلاس سے پہلے کہنا ہے کہ اتحاد کی کاروائیوں میں رابطہ کاری اور اطلاعات کے تیادلے کیلئے اس اجلاس میں خلائی ا سٹیشن کی مدد یقینی بنانے پر توجہ مرکوز رہے گی۔ناٹو کے رکن ملکوں کا کہنا ہے کہ ایک ایسے وقت میں جب چین اور روس کا رویہ اپنے خلائی پروگراموں کے حوالے سے مسلسل جارحانہ ہوتا جا رہا ہے، تو ایک سطح پرناٹو کا خلائی پروگرام، تیز رفتاری سے آگے بڑھتے ہائی ٹیک سیکٹر میں اپنے آپ کو اس کی رفتار کے ساتھ ساتھ مل کر چلنے کی ایک کاوش ہے۔

تاہم ناٹو اتحادیوں کی تشویش بڑھتی جا رہی ہے کہ زمین سے میلوں اونچائی پر سیٹیلائٹ مخالف اسلحے سے اور قسم کے حملے بھی ہو سکتے ہیں، جو کہ زمین پر تباہی مچا سکتے ہیں اور خلا میں اپنا کوڑا کرکٹ پھیلا سکتے ہیں۔ینس اسٹولٹن برگ کا کہنا ہے کہ چند ممالک، جن میں روس اور چین شامل ہیں، ایسے سیٹیلائٹ مخالف نظام بنا رہے ہیں، جو خلا میں پہلے سے موجود مصنوی سیاروں کو اندھا کر سکتے یا انہیں ناکارہ کر سکتے ہیں، جس کے بعد خلا میں خطرناک کوڑا کرکٹ پھیل جائے گا۔اسٹولٹن برگ کہتے ہیں کہ ہمیں خلا کے بارے میں اپنی سمجھ بوجھ اور اہلیت کو بڑھانا ہو گا تا کہ ایسے مسئلوں کو حل کیا جاسکے۔

فی الحال ناٹوکا اصرار ہے کہ اس کا طریقہ کار دفاعی اور پوری طرح سے بین الاقوامی قانون کے مطابق ہو گا۔ سٹولٹن برگ کا کہنا ہے کہ خلا میں ہتھیار بھیجنے کا ناٹو کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔اس وقت تقریباً دو ہزار مصنوعی سیارے زمین کے گرد گردش کر رہے ہیں، ان میں سے نصف ناٹو میں شامل رکن ملکوں کی ملکیت ہیں۔ ان کے ذریعے موبائل فون سے لیکر بینکنگ خدمات اور موسمی پیش گوئیاں تک ہر چیز کو یقینی بنایا جاتا ہے۔

افغانستان اور کوسوو میں تعینات ناٹو کمانڈر، اِن سیٹیلائٹ کے ذریعے ہی نیوی گیشن، کمیونیکیشن، انٹلیٰجنس شیئرنگ اور میزائل داغے جانے پر نظر رکھتے ہیں۔تقریبا 80 ملکوں کے پاس سیٹیلائٹ ہیں، اور اب نجی کمپنیاں بھی اس شعبے میں آ رہی ہیں۔ 1980 کی دہائی میں ناٹو کی بہت کم کمیونیکیشن سیٹیلائٹ کے ذریعے ہوتی تھی۔ آج یہ کم از کم چالیس فیصد تک جا چکی ہے۔ سرد جنگ کے زمانے میں ناٹو کے 20 سے زیادہ اسٹیشن تھے، تاہم جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے دنیا کی سب سے بڑی سیکیورٹی آرگنائزیشن اس سے دگنی کوریج بہت کم اسٹیشنوں کے قیام سے کر سکتی ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *