Nawab Akbar Bugti's 14th death anniversaryتصویر سوشل میڈیا

کوئٹہ: مشہور قوم پرست سیاسی رہنما اور جمہوری وطن پارٹی کے سربراہ محمد اکبر خان بگٹی کی، جنہیں 26اگست2006کو بم دھماکہ کر کے شہید کر دیا گیا تھا،14ویں برسی پر زبردست خراج عقیدت پیش کیا گیا ۔

بلوچ طلبا تنظیم (بی ایس او) اور بلوچ نیشنل موومنٹ (بی این ایم) نے شہید نواب بگٹی کی برسی پر تعزیتی نشست میں قرار دادیں منظور کی گئیں۔جامعہ بلوچستان میںبلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے زیر اہتمام یو او بی سرکل میں منعقد تعزیتی اجلاس میں بی ایس او کے سیکرٹری جنرل منیر جالب بلوچ نے مہمان خصوصی کے طور پر شرکت کی۔

تعزیتی نشست میں صمند بلوچ،ناصر بلوچ، شکور بلوچ، بابا بلوچ،گوادر زون کے ممبران جام سلمان اور جاوید دشتی اور دیگر سینئر ممبران و طلبا نے شرکت کی۔تعزیتی اجلاس میں مقررین نے شہید نواب اکبر خان بگٹی کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کی زندگی سیاست قومی جہد کردار اور قربانیوں پر روشنی ڈالی اور کہا کہ شہید نواب بگٹی اصولوں کے پکے انسان تھے انہوں نے کبھی بھی اصولوں پر سودے بازی نہیں کی اور بلکہ ایسی شہادت کو ترجیح دی جو آج بلوچ قوم ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں اپنے حقوق کے لئے جدوجہد کرنے والوں کے لیے مشعل راہ ہے۔

مقررین نے کہا کہ شہید بگٹی اور ان کے ہمراہ شہید ہونے والے ان کے دیگر ساتھیوں کی برسی کے موقع پر ہمیں عہد کرنا ہوگا کہ ظالم کے سامنے کبھی نہیں جھکیں گے اور آخری فتح ہماری ہی ہوگی کے نعرے کی گونج میں پنے وجود اور تشخص کو برقرار رکھتے ہوئے اپنی جدو جہدکو آگے بڑھانا ہوگا۔بلوچ نیشنل موومنٹ کے چیئرمین خلیل بلوچ نے انہیں خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ سانحہ تراتانی بہادری، جرات، قربانی، بلوچ نیشنلزم اور مزاحمتی تاریخ کا ایک یادگار باب ہے۔ اورنواب مزاحمت کا راستہ اختیار کرکے ہمیشہ کے لئے امر ہوگئے۔

خلیل بلوچ نے کہا کہ تاریخ شناس اکبر خان اس امر کا بہت پہلے ادراک کرچکے تھے کہ پاکستان عنقریب بلوچ ساحل اور وسائل ہڑپنے کے لئے سامراجی منصوبے عمل میں لاسکتا ہے لیکن نام نہاد قوم پرستوں نے ان کا ساتھ دینے کے لیے ایک پرچم تلے جمع ہونے کے بجائے مبہم نعروں کی سیاست جاری رکھی۔ لیکن وقت نے ثابت کردیا کہ نواب صاحب کا ادراک حقیقت پرمبنی تھا اورحقیقت کا مقابلہ کرنے کے لئے انہوں نے اپنی گزشتہ پارلیمانی سیاست کے برعکس مزاحمت کا کردار اپنایا۔ وہ اپنی فہم و فراست و بصیرت سے بہت پہلے بھانپ چکے تھے کہ بلوچستان کا مسئلہ، بلوچ قومی وسائل اور بلوچ زبان و ثقافت کا دفاع پاکستان کی وفاقی نظام میں نہیں بلکہ ایک آزاد بلوچ ریاست میں مضمر ہے۔انہوں نے کہا کہ نواب بگٹی ایک بلند پایہ سیاستدان کے علاوہ کثیرالجہت انسان تھے۔

وہ سیاست میں مختلف نشیب و فراز سے گزر چکے تھے۔ یہ ان کی تاریخ شناسی تھی کہ انہوں نے جدوجہد آزادی کے لئے میدان جنگ کا رخ کیا اور آخری دم تک جرات، بہادری اور استقلال سے لڑے اور بلوچ قومی تحریک میں ناقابل فراموش کردار ادا کیا۔ وہ اپنی عظیم قربانی سے قومی تحریک میں انمٹ نقوش چھوڑ گئے۔ ان کی تاریخی فیصلوں نے انہیں امر کردیا جبکہ اس دور کے پاکستانی حکمران جنرل مشرف خود اپنے ملک سے مفرور اور گمنامی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔انہوں نے کہا کہ اکبر بگٹی نے اپنی وراثت میں بلوچ تاریخ کو مزاحمت کے انمول باب سے سرفراز کیا۔

انہوں نے نشیب و فراز سے بھرپور زندگی گزاری لیکن آخری سالوں میں انہوں نے بلوچ نیشنلزم کے لئے تاریخی معرکہ انجام دیا۔ اکبر خان ایک بلند پایہ سیاستدان، کثیرالمطالعہ عالم اور تاریخ کا نبض شناس انسان تھے۔ انہیں اپنی سرزمین اور اپنی روایات سے عشق تھا۔ ایٹمی ہتھیاروں سے لیس طاقت اور انسانی اقدار سے عاری پاکستان انہیں پیرانہ سالی میں سرتسلیم خم پر مجبور نہ کرسکا۔ وہ شہید ہوکر امر ہوگئے اور پاکستانی فوجی تکبر کو خاک میں ملا دیا۔

انہوں نے کہا کہ حکومت پاکستان نواب کی سحر انگیز شخصیت سے اس طرح خائف تھا کہ اس نے ان کی جسد خاکی کو ورثا کے حوالے کرنے کے بجائے تابوت میں تالا لگا کر دفن کیا۔ مگر ان کی فکر اور سوچ کو قید نہیں کرسکے اور وہ آج تک ایک مشعل راہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ نواب اکبر خان بگٹی کو خراج عقیدت پیش کرنے کا بہترین ذریعہ ان کے فکر و فلسفہ آزادی پر کاربند رہنا ہے۔ ان کی قربانی کا مقصد بلوچ قومی آزادی کا حصول تھا۔ ان کے فکری وارث بلوچ ہیں اور بلوچ قوم ان کے مشن کو پورا کرنے کے لئے کسی بھی قسم کی قربانی سے دریغ نہیں کرے گی۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *