نئی دہلی: ہندوستانی علاقوں لیپو لیکھ، کالا پانی اور لمپیا دھورا کو اپنے علاقہ دکھاتے ہوئے آئینی ترمیم کے توسط سے ملک کا سیاسی نقشہ دوبارہ تیار کرنے ہندوستان کے خلاف بیان بازی کے بعد نیپال میں شروع ہونے والے سیاسی بحران نے اس وقت نیا رخ اختیار کر لیا جب اپنے استعفے کے بتدریج بڑھتے مطالبہ کے سائے میں نیپال کے وزیر اعظم کے پی شرما اولی نے جمعرات کو دوپہر میں ملک کی صدر ودیا دیوی بھنڈاری سے ملاقات کی۔68سالہ اولی کی صدر سے ملاقات کے بعد اپنی کابینہ کے اجلاس کی صدارت ، بجٹ اجلاس برخاست کرنے اور پھر قوم سے خطاب کرنے کے اعلان کی روشنی میں سیاسی و عوامی حلقوں میں یہ خبریں گردش کرنے لگی ہیں کہ اولی کسی بھی وقت وزارت عظمیٰ سے ہی نہیں پارٹی صدارت سے بھی مستعفی ہو سکتے ہیں۔
نیپال کی حکمراں کمیونسٹ پارٹی بشمول سابق وزیر اعظم پشپ کمل داہل پرچنڈا کی جانب سے یہ کہتے ہوئے وزیر اعظم کے پی شرما اولی سے استعفے کا مطالبہ کیا کہ ہندوستان کے خلاف ان کے ریمارکس نہ تو سیاسی طور پر درست ہیں اور نہ ہی سفارتی لحاظ سے مناسب ہیں۔ وزیر اعظم اولی نے اس سے قبل کہا تھا کہ انہیں اقتدار سے بے دخل کرنے کے لیے سفارت خانوں اور ہوٹلوں میں مختلف قسم کی سرگرمیاں چل رہی ہیں۔
انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ کچھ نیپالی رہنما بھی اس سازش میں آلہ کار بنے ہوئے ہیں۔جس کے بعد پرچنڈا نے کہا تھا کہ وزیر اعظم کے یہ ریمارکس کہ ہندوستان انہیں معزول کرانے کی سازش رچ رہا ہے سیاسی اعتبار سے درست ہے نہ سفارتی لحاظ سے مناسب ہے۔تاہم اس وقت نیپال میں سیاسی سطح پر کیا اٹھا پٹخ ہورہی ہے اور اولی کیا اعلان کرنے ولے ہیں اس کا علم ان کے کابینی رفقاءکو بھی نہیں ہے۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ جمعرات کا دن ختم ہونے تک اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔لیکن اتنا طے ہے کہ ہمہ وقت آڑے وقتوں میں کام آتے رہنے اور خاص طور پر کوویڈ19- سے نمٹنے کے لیے اس کی ہر طرح سے مدد کرنے والے پڑوسی ملک ہندوستان کے خلاف بیان بازی سے خود ان کی پارٹی کی اعلیٰ قیادت یہاں تک کہ خود کئی وزراءناخوش ہیں اور وہ ملک کا وزیر اعظم ہی نہیں بلکہ پارٹی قیادت بھی بدلنے کے حق میں ہیں ۔