عرشیہ انجم

میں کیسے حسن و عشق کے قصے لکھ دوں
کیسے ہجر و وصال کے قصیدے پڑھ دو ں

کیسے خوشبو بادل بارش ہوا کے تذکرے
اور خوب صورت چاندنی کی بات کہہ دو ں

جبکہ فضا میں دلسوز چیخیں محوِ گردش ہوں
شاہراہوں پے معصوموں کا خون منجمد ہو

آہ و بکا سے ہوا پرنم ہو
یہ کیسا کھیل دکھایا ہے جادوگر نے

کہ دھرتی کی کوکھ ہو چلی ہے
اب مٹی سے نفرتوں کی فصل ا±گنے لگی ہے

کھانوں سے مذہب بننے لگے ہیں
تیوہار بھی بندوقوں کے زیرِ سایہ ہیں

اب ہولی کے رنگو ں دیوالی کے پٹاخوں سے
خوف و دہشت کا دھواں اٹھنے لگا ہے

لباس اور نام موت کا پیغام سنانے لگے ہیں
زندگی اندیشوں کا نام ہوتی جا رہی ہے

آہستہ آہستہ تاریکی بڑھتی جا رہی ہے
مایوسی کی چادر کھنچتی جا رہی ہے

یہ اچانک کیا ہوا ہے
کوئی کرن سے پھوٹ تی ہے دبیز کہر کے درمیاں

اور پھر روشن ہو جاتا ہے آسماں
ہر طرف فلک شگاف نعرے ہیں

یہ تو آزادی کا متوالے ہیں
محبت و اخوت کے رکھوالے ہیں

اب یہ مایوسی کی دھند چھٹ جائیگی
اب ایک نئی صبح لوٹ آئیگی۔۔۔۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *