قادر خان یوسف زئی
پاکستان کے دل بلوچستان کو مسلسل دہشت گردی کا نشانہ بنایا جارہا ہے، گو کہ بڑے واقعات رونما نہیں ہورہے لیکن سیکورٹی فورسز کو دہشت گردی کے واقعات سے جانی نقصانات کا سامنا ہے۔27 جون کو سبی سے تعلق رکھنے والے ایف سی بلوچستان کے اہلکار کو دہشت گردو ں نے ایم 8 پر واٹر باو¿زرکو نشانہ بنایا گیا۔جب کہ اگلے دن ایک مرتبہ پھر ہرنائی اور کوئٹہ کے سرحدی مقام مارگٹ میں سرکی کچھ کے مقام پر دہشت گردوں نے پاک۔افغان بارڈر لگانے پرتعینات سیکورٹی فورسز پر حملہ کیا گیا، اس واقعے میں تین ایف سی کے اہلکار شہید اور ایک زخمی ہوا۔ جب کہ 5مئی کو ضلع ڑوب میں پاک۔افغان سرحد پر افغان سرزمین سے فائرنگ کی گئی، جس میں چار اہلکار شہید اور چھ زخمی ہوئے تھے۔آئی ایس پی آر کے مطابق جوابی کاروائیوں میں 10 سے زائد دہشت گردوں کو ہلاک اور متعدد کو زخمی کیاگیا۔بلوچستا ن کے مختلف علاقوں اور بالخصوص پاک۔ افغان سرحدی باڑ پر تعینات یا باڑ لگانے والے اہلکاروں پر دہشت گردوں کے حملوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے، ذرائع کے مطابق گذشتہ برس ابتدائی چھ مہینوں میں سیکورٹی فورسز پر22 حملے کئے گئے جب کہ رواں برس تک دہشت گردی کے اب تک قریباََ 88 واقعات رونما ہوچکے ہیں۔ بالخصوص جب سے امریکہ نے افغانستان سے انخلا کا ٹائم فریم دیا ہے، سرحد پار سے دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے، گذشتہ صرف دو مہینوں میں متعدد حملے کئے گئے جس میں سیکورٹی فورسز کے 20 سے زائد اہلکار شہید ہوئے۔
رواں ماہ یکم جون کو کوئٹہ اور تربت میں ایف سی کے اہلکاروں کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا گیا جس میں چار اہلکار شہید اور آٹھ زخمی ہوئے تھے۔جبکہ مئی کے مہینے میں کوئٹہ اور تربت ہی میں دہشت گردی کے دو مختلف واقعات میں 3 اہلکاروں کو شہید کیا جاچکا تھا۔حالیہ واقعات میں اضافے کی وجوہ میں پاک۔افغان بارڈر منجمنٹ سسٹم کو رواں ماہ مکمل کئے جانے کے اعلان سے بھی جوڑا جارہا ہے کہ افغان سرزمین میں روپوش ملک دشمن عناصر امریکہ و نیٹو افواج کے انخلا کے بعد دوحہ معاہدے کے تحت افغانستان میں اپنی جائے پناہ میں محفوظ رہنا مشکل ہوجائے گا اور افغان طالبان کی جانب سے جس طرح افغانستان کے سرحدی علاقوں پر پیش قدمی بڑھائی جارہی ہے، اس سے اندازہ کیا جارہا ہے کہ دہشت گردوں کو پاکستان کے خلاف کاروائی کرنے میں شدید مشکلات کا سامنا ہوسکتا ہے، یہی وجہ قرار دی جا رہی ہے کہ دہشت گرد سرحدپار سے علاقوں میں سیکورٹی فورسز کی نقل و حرکت کو محدود کرنے کے لئے بزدلانہ کاروائیاں کررہے ہیں۔بلوچستان کو دہشت گردی کا نشانہ بنانے کی مذموم سازشوں میں ملک دشمن ایجنسیوں کی مداخلت کے ٹھوس ثبوت سامنے آچکے ہیں، ان سازشوں و دہشت گردی کے واقعات کا مقصد مملکت کو عدم استحکام سے دوچار کرنا اور منفی پروپیگنڈوں سے عوام میں غلط فہمیوں کو بڑھانا ہے۔ امریکہ نے جب سے افغانستان سے اپنے انخلا کی حتمی تاریخ کا اعلان کیا ہے، دہشت گردوں کو افغانستان میں روپوش ہونا مشکل ہوتا جارہا ہے، نام نہاد قوم پرستوں کی جنگجو گروپوں کے درمیان اختلافات اور باہمی پر تشدد کاروائیوں سے ہلاکتوں میں بھی اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے، ملک دشمن نیٹ ورک کے کئی گروپوں میں اختلافات کی وجہ سے کالعدم تنظیموں کے اہم کمانڈر وں کی افغان سرزمین میں ہلاکتوں کی اطلاعات خود کالعدم تنظیمیں دی رہی ہیں، کالعدم تنظیم کے اسلم اچھو اور اس کے ساتھیوں کے علاوہ اہم کمانڈر بلا عرف جلال اور گزشتہ دنوں میر عبدالنبی کی ہلاکتوں کی تصدیق کالعدم تنظیم نے اپنے آفیشل ٹیلی گرام اکاؤنٹ اور ویب سائٹ پر کی۔
ذرائع کے مطابق نام نہاد قوم پرست تنظیموں نے ایک خود ساختہ اتحاد بھی بنایا ہوا ہے، جو کہ ایک ہی شاخ کے مختلف حصے ہیں جو باہمی اختلافات کے بعد دھڑوں میں تقسیم ہوئے اور انہوں نے اپنے مسلح اہلکاروں کی مدد سے اپنے مخالفین کو بھی ہلاک کیا، دریں اثنا ئ کالعدم تنظیموں کو افغان سرزمین پر داعش خراساں شاخ اور الباکستان شاخ کے خلاف علاقوں میں اثر نفوذ رکھنے کے لئے شدید اختلافات ہیں، مسلح دہشت گرد تنظیمیں سرحدی علاقوں میں اپنی اجارہ داری قائم رکھنے کے لئے ایک دوسرے کے خلاف بھی حملے میں ملوث رہے ہیں، کالعدم تنظیموں کے اہم کمانڈروں کی ہلاکتوں میں انہی عناصرکی چپقلش بنیادی وجوہ بھی سمجھی جاتی جاتی ہیں۔افغانستان میں فرقہ وارانہ بنیادوں پر کئی ایسی جنگجو ملیشیاو¿ں میں بھرتی کا سلسلہ بھی شروع ہے، جو امریکہ و ناٹو انخلا کے بعد افغان طالبان کے خلاف منظم خانہ جنگی کا ارادہ رکھتے ہیں، ذرائع کے مطابق جنگجو ملیشیاو¿ں کو ایسے عناصر کی حمایت حاصل ہے جو فرقہ وارانہ و نسلی بنیادوں پر افغانستان کے بعض حصوں پر اپنے تسلط کو قائم رکھنا چاہتے ہیں، دہشت گرد گروپوں میں آپریشن سے فرار ہونے والوں نے آپس میں بھی نام نہاد خود ساختہ اتحاد قائم کرکے پاکستان اور افغانستان میں دہشت گرد کاروائیوں کو بڑھانے کے لئے مذموم سازشیں کا دائرہ بڑھایا، پاکستان مسلسل کابل انتظامیہ سے ایسے ملک دشمن دہشت گرد گروپوں کے خلاف کاروائیوں کا مطالبہ کرتا چلا آرہا ہے جو پاکستانی سیکورٹی فورسز پر حملوں میں ملوث ہیں، بلکہ بلوچستان میں عام عوام و محنت کش مزدوروں کو بھی دہشت گردی کا نشانہ بنانے میں پائے گئے ہیں، پاکستان نے کابل انتظامیہ کو سرحد پار سے کی جانے والی دہشت گردی کے واقعات کے ٹھوس شواہد بھی فراہم کئے گئے ہیں لیکن کابل انتظامیہ نے کوئی کاروائی نہیں کی بلکہ مسلسل بلوچستان میں خلفشار پیدا کرنے کی سازش کررہی ہے، پاکستانی سیکورٹی فورسز ملک دشمن عناصر کے خلاف اپنی قیمتی جانوں کی قربانیاں دے رہے ہیں اور انہیں دہشت گردی کا مسلسل سامنا ہے۔
بلوچستان کے حساس علاقوں میں منظم سازش کے تحت شناخت کرکے محنت کشوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے تاکہ فرقہ وارنہ یا نسلی بنیادوں پر عدم استحکام ہو، تاہم قانون نافذ کرے والے اداروں کی جانب سے حساس مقامات پر قیام امن کے لئے جانی قربانیاں دینا شدت پسندوں کے مذموم عزائم کو کامیاب ہونے سے روک دیتی ہیں۔ شدت پسندوں کی جانب سے منفی پروپیگنڈوں کا سہارا لے کر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے خلاف منظم مہم بھی چلائی جاتی اہے اور ایسے واقعات کو بھی متنازع بنانے کی کوشش کی جاتی ہے، جس کا تعلق قانون نافذ کرنے والے اداروں سے نہیں ہوتا۔ بلوچستان پولیس، ایف سی سمیت سیکورٹی فورسز کے دیگر اہلکار پاک۔ افغان بارڈر کی تکمیل کے لئے روز و شب اپنی جانوں کو خطرات میں ڈال رہے ہیں، وزرات داخلہ کے مطابق 90 فیصد بارڈر منجمنٹ کا کام مکمل ہوچکا ہے اور رواں ماہ باقی ماندہ کام مکمل کرنے کی توقع ظاہر کی گئی ہے، پاک۔ افغان بارڈر منجمنٹ کا یہ پہلا فیز ہے، اس کے ساتھ پاک۔ ایران بارڈر منجمنٹ پر بھی کام شروع کیا گیا کیونکہ طویل سرحدی علاقے افغانستان کی سرحد سے بھی متصل ہیں، جس کی وجہ سے سیکورٹی کو بہتر بنانے کے لئے ایران کی بارڈر کو بھی محفوظ بنانے پر سیکورٹی فورسز کام کررہی ہے۔خیال رہے کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان قریباََ 2500 کلو میٹر طویل سرحد ہے۔جس میں 1229 کلومیٹر صوبہ خیبر پختونخوا میں ہے اور بقایا صوبہ بلوچستان میں شامل ہے۔
ذرائع کے مطابق قریباََ 235 ایسے مقامات کی نشاندہی ہوئی، جس میں اسمگلرز شدت پسند سمیت غیر قانونی طور پر سرحد پار کی جاتی ہے۔ افغانستان کے ساتھ پاکستان کے چھ باضابطہ سرحدی راستے فعال ہیں،جن میں خیبرپختونخوا میں طورخم (خیبر)، انگور اڈہ (جنوبی وزیرستان)، غلام خان (شمالی وزیرستان) اور خرلاچی (کرم)۔ اسی طرح بلوچستان میں چمن (قلعہ عبداللہ) اور بادینی (قلعہ سیف اللہ) شامل ہے جبکہ پاکستان نے ایران کے ساتھ بارڈر پر باڑ لگانے کا کام شروع کیا ہوا اور یہ کام 80 فیصد تک مکمل ہوچکا ہے۔اس کے ساتھ ساتھ مکران ڈویژن کے اندر تقریباً کوئی 17 کراسنگ پوائنٹ قائم کیے گئے، جس میں پانچ ضلع گوادر، آٹھ ضلع کیچ اور چار ضلع پنچگور میں قائم کیے ہیں۔پاکستان اور ایران کے درمیان 904 کلومیٹر طویل سرحد ہے۔ بلوچستان کے سرحدی اضلاع میں چاغی، واشک، پنجگور، کیچ، تربت اور گودار شامل ہیں۔بلوچستان کے سرحدی علاقوں سے شدت پسندوں کی روک تھام کے لئے پاکستان نے سخت محنت طلب و جان جوکھم والا منصوبہ اپنی مدد آپ کے تحت شروع کیا، یقینی طور پر ملک دشمن عناصر کے لئے یہ قابل قبول نہیں کہ ان کی مجرمانہ غیر قانونی سرگرمیوں میں رکاو¿ٹ پیدا ہو، اس لئے ملک دشمن عناصرکی فنڈنگ سے بلوچستان سمیت شمال مغربی سرحدوں اور مملکت کے اہم شہروں و علاقوں میں دہشت گردی کے واقعات میں ریاست کو کمزور کرنے کی سازش کی جاتی رہی۔ افغانستان اور ایران اگر بارڈر منجمنٹ سسٹم میں پاکستان کے ساتھ متفق ہوکر ساتھ دیں تو اس سے تینوں ممالک کو شدت پسندوں اور دہشت گردوں کے نیٹ ورک کو ختم کرنے کا موقع ملے گا اور شدت پسندی کے واقعات کو روکنے میں مدد ملے گی، تاہم پاکستان کے خلاف سرحد پار کالعدم تنظیموں کی پشت پناہی سے حالات سازگار ہونے میں دقت کا سامنا ہے، تاہم پاکستان اس عزم کا اعادہ ظاہر کرچکا ہے کہ حالات بہت زیادہ بگڑنے پر پاکستان اپنی سرحدیں سیل کرنے کی صلاحیت حاصل کرچکا ہے،سیکورٹی فورسز کے افسران و اہلکاروں کی شہادتیں وطن عزیز کی سلامتی و بقا کے لئے قابل قدر خدمات ہیں۔