کوئٹہ: (اے یوا یس )پاکستان میں لوگوں کا لاپتہ ہونا کوئی نئی بات نہیں ہے۔اور خفیہ ایجنسی کے کارندے بلوچستان ،خیبر پختونخوا اور سند ھ کے سیاسی مخالفین کے ہزاروں حامیوں کے جبراً گمشدگی میںملوث ہونے کے الزاما ت کے گھیرے میں ہیں۔انسانی حقوق کی تنظیم اور دوسرے بین الاقوامی اداروں نے اپنے رپورٹس میں وقتاً فوقتاً پشتون کے علاوہ دوسرے سیاسی جماعتو ںکے ورکروں کی گمشدگی رپورٹ کی ہے۔
یہاں تک کہ سپریم کورٹ کو بھی اس میں مداخلت کرنی پڑی اور سیکورٹی اداروں اور وزارت داخلہ کے اعلیٰ افسروں کو نوٹس بھی جاری کئے۔ وزیراعظم عمران خان نے یہ وعدہ کیاتھا کہ اگر وہ اقتدار میںآ ئیں گے وہ گمشدہ لوگوں کی بازیابی کے لئے اقدامات اٹھائےںگے ۔لیکن پچھلے تین سالوں کے دوران کچھ نہیں ہوا یہا ں تک کہ بلوچستان نیشنل پارٹی ان کی کارکردگی سے تنگ آگئی اور اتحاد توڑدیا۔ان کے دور حکومت میں انسانی حقوق کے سرگرم کارکن ادریس کھٹک کو 2019میں گرفتار کیاگیا۔بلوچ مسنگ پرسنز کی ایک رپورٹس کے مطابق صوبے میں ابھی بھی چھ ہزار لوگ لاپتہ ہیں۔ 1400لوگ جوسیکورٹی اہلکاروں کی تحویل میں تھے ہلاک ہوئے اور ان کی لاشیں مختلف مقامات پربازیاب ہوئیں اس کی وجہ سے بلوچستان میں انتہا پسند سرگرمیاں بڑھ گئی ہیں۔
پچھلے سال سے پہلے چھ مہینوں کے دوران139لوگوں کو زبردستی گھروں سے اٹھایاگیا جبکہ 84کو بعد میں چھوڑا گیا۔ بلوچستان کے سابق وزیراعلیٰ ڈاکٹر عبدالملک نے کہا کہ صوبے میں صورتحال خطرناک ہے۔ چھوٹے چھوٹے مسئلوں پر لوگ لاپتہ ہوتے ہیں۔ اس دوران منظور پشتون نے لاپتہ لوگوں کی رہائی کے لئے ایک مہم شروع کی۔ اور انہوں نے کہاکہ ابھی بھی سیکورٹی اہلکار لوگوں کو اغوا کرتے ہیں۔ایک اور پشتون رہنما بشیر احمد گاوک نے کہا کہ وہ تب تک اپنی تحریک جاری رکھیںگے جب تک وہ اپنے مقصد میںکامیاب نہیں ہوںگے۔ انہوںنے حکومت سے درخواست کی کہ وہ تمام لاپتہ لوگوں کو عدالت میں پیش کرے اور بے گناہ لوگوں کو اغوا نہ کرے۔
بشیر احمد گاوک نے کہا کہ بلوچستان میں جگہ جگہ پر بارودی سرنگیں بچھائیں ہوئی ہیں اور حکومت کو انہیں ہٹانے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ ان باروں سرنگوں سے بے گناہوں کی جان چلی جاتی ہے۔ اور ایک کارکن خور بی بی نے پاکستانی میڈیا پر الزام لگایا کہ وہ ان کی سرگرمیوں کی رپورٹنگ نہیں کررہے ہیں کیونکہ ان پر سیکورٹی اہلکاروں کا دباﺅ ہے انہوں نے کہاکہ لانگ مارچ میں ہزاروں لوگوں نے شرکت کیاور پاکستانی میڈیا اس پر خاموش رہا۔ ایک اور رہنما محسن داور نے حکومت سے اپیل کی کہ وہ پشتون قانون ساز کو رہا کرے۔
