No issues resolve through television debates : Political Analyst Sheikh Manzoorتصویر سوشل میڈیا

نئی دہلی: ہندوستان و پاکستان کے درمیان معرض التوا میں پڑے دو طرفہ مسائل اور تنازعات کے تصفیہ کے لیے پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان کی وزیر اعظم ہند نریندر مودی سے ٹی وی مباحثہ کی پیش کش پر ہندوستان میں بلا لحاظ سیاسی و جماعتی وابستگی شدید ردعمل ظاہر کیا گیا ۔ اگرچہ ہندوستانی وزارت خارجہ نے ابھی تک اس پیش کش پر کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا ہے لیکن حکمراں جماعت بی جے پی کے ایک اہم لیڈر راجیو پانڈے نے عمران خان کی اس تجویز /پیش کش کو مضحکہ خیز بتاتے ہوئے اسے خارج کر دیا۔علاوہ ازیں کانگریس کے شعلہ بیان لیڈر و سابق وزیر مملکت خارجہ ششی تھرور اور بین الاقوامی امور پر دسترس رکھنے والے معروف سیاسی تجزیہ کار و سینیئر جرنلسٹ شیخ منظور احمد نے بھی،جو عالمی اردو سروس کے ایڈیٹر انچیف بھی ہیں، اس پیش کش کو غیر ضروری بتاتے ہوئے کہا کہ ٹی وی مباحثہ سے مسائل حل نہیں ہوتے اور ایسا مباحثہ بحث برائے بحث تک ہی محدود رہ جاتا ہے۔ شیخ منظور نے نئی دہلی میں وائس آف امریکہ کے نمائندے سہیل انجم سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ڈپلومیسی میں ٹی وی مباحثے کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی اور نہ ہی اس کی ضرورت ہوتی ہے۔ ان کے مطابق مسائل کو حل کرنے کے لیے بہتر ہوتا کہ وزیر اعظم کو مدعو کیا جاتا یا وزارتی سطح پر پہلے بات چیت ہوتی۔ اس کے بعد ہی معاملہ آگے بڑھتا۔ان کے بقول آپریشن بالاکوٹ کے بعد گزشتہ تین برس میں دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی بڑھی ہے۔ اس کے علاوہ دونوں ملکوں نے ایک دوسرے ملک میں اپنے سفارتی عملے کو کم کر دیا ہے۔ دونوں ملکوں میں نہ کسی قسم کا رابطہ ہے، نہ تجارت ہے، نہ کوئی تعلق ہے۔

ان کے مطابق حالیہ دنوں میں صرف مذہبی زیارت کے لیے ویزے دیے گئے ہیں۔ لہٰذا اس قسم کے مذاکرات کا یہ کوئی وقت بھی نہیں ہے۔ اور پھر دو ملکوں کے باہمی مسائل ٹی وی ڈیبیٹ میں حل نہیں ہوتے۔ اس کے برعکس سفارت کاری کی ضرورت ہوتی ہے۔انہوں نے کہا کہ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ پیچیدہ مسائل ایک دو ملاقاتوں میں حل نہیں ہوتے۔ اس کے لیے مہینوں بلکہ سالوں تک سفارت کاری کی جاتی ہے۔ خواہ براہ راست مذاکرات ہوں یا بیک چینل بات چیت ہو۔انہوں نے مزید کہا کہ دونوں ملکوں نے گزشتہ سال ایل او سی پر سیز فائر یا جنگ بندی کی ہ لیکن ماہرین کے مطابق اس سلسلے میں عرب ملکوں اور بالخصوص متحدہ عرب امارات نے خاص کردار ادا کیا اور تب جا کر دو سال میں پیش رفت ہوئی۔انہوں نے کہا کہ دونوں ملکوں میں بہتر اور دوستانہ رشتے ہونے چاہئیں۔ لیکن اس کے لیے پہلے دونوں ملکوں کو باہمی تعلقات کو معمول پر لانا ہوگا۔ اس کے بعد ملاقات کا ماحول بنانا ہوگا۔ اس کے علاوہ دونوں ملکوں کو چاہیے کہ وہ ایک دوسرے ملک میں اپنے سفارت خانوں میں سفارتی عملہ مکمل کریں۔ دونوں ملکوں میں ہائی کمشنرز تعینات ہوں۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ البتہ حالیہ دنوں میں ایک پیش رفت ہوئی ہے اور وہ یہ ہے کہ ہندوستان کی جانب سے پاکستان کے راستے افغانستان کے لیے 50 ہزار ٹن گندم سپلائی کی گئی۔ لیکن اس معاملے میں بھی دونوں ملکوں کو طریقہ کار طے کرنے میں تقریباً دو ماہ لگ گئے۔

ان کے مطابق جب تک تعلقات معمول پر نہیں آئیں گے اور مسائل کی نشان دہی نہیں ہو گی اس وقت تک مباحثہ کس بات پر اور کیسے ہو گا؟ ڈیبیٹ تو دور کی بات ہے مذاکرات بھی نہیں ہو سکتے۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ دو ملکوں کے درمیان جب بھی تنازعات کے حل کے لیے بیک چینل ڈپلومیسی ہوتی ہے تو اسے خفیہ رکھا جاتا ہے۔یاد رہے کہ 2016 میں پٹھان کوٹ کے ایئر فورس کے کیمپ پر دہشت گردانہ حملے کے بعد دونوں ملکوں کے تعلقات میں تعطل آ گیا تھا۔ اس کے بعد جموں کے اڑی کیمپ پر حملے کے بعد رشتے مزید ابتر ہو گئے۔پھر جموں و کشمیر کے پلوامہ میں سینٹرل ریزرو پولیس فورس (سی آر پی ایف) کے ایک قافلے پر حملے کے بعد جس میں 20ہندوستانی فوجی ہلاک ہوئے تھے حالات اور خراب ہو گئے۔فروری میں ہندوستان کی جانب سے جیشِ محمد کے ایک تربیتی کیمپ پر فضائی کارروائی اور اس کے جواب میں پاکستانی فوج کی کارروائی کے نتیجے میں دونوں ملک جنگ کے دہانے پر پہنچ گئے تھے۔یاد رہے کہ جب بھی پاکستان کی جانب سے مذاکرات کی پیشکش ہوئی ہے تو ہندوستان نے کہا ہے کہ پاکستان پہلے دہشت گردی کا خاتمہ کرے اور بات چیت کے لیے ماحول سازگار کرے اس کے بعد ہی کوئی بات ہو سکتی ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *