کابل:(اے یو ایس ) طالبان نے افغانستان میں شدت پسند گروپوں پر قابو پانے کے لیے امریکا کے ساتھ تعاون کو مسترد کر دیا۔ طالبان کا کہنا ہے کہ دہشت گروہ ’داعش‘ کی سرکوبی کے لیے ہمیں امریکا کی مدد کی ضرورت نہیں۔ طالبان دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔طالبان کی طرف سے یہ موقف ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب ہفتے کے روز قطر کے دارالحکومت دوحہ میں طالبان اور امریکا کے درمیان پہلے براہ راست مذاکرات شروع ہوئے ۔
دونوں فریقوں کے عہدیداروں نے کہا کہ زیر بحث مسائل میں شدت پسند گروہوں کو لگام ڈالنا اور غیر ملکی اور افغان شہریوں کو ملک سے نکالنا شامل تھا۔ طالبان نے انخلا کے بارے میں لچک دکھائی ہے۔ طالبان کے سیاسی شعبے کے ترجمان سہیل شاہین نے خبر رساں ادارے ’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ کو بتایا کہ افغانستان میں داعش کی شاخ کے تعاقب میں امریکہ کے ساتھ کوئی تعاون نہیں ہوگا۔اس سوال کے جواب میں کہ آیا طالبان امریکا کے ساتھ مل کر داعش پر قابو پانے کے لیے کام کریں گے؟ شاہین نے کہا کہ ہم خود ’داعش‘ کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
داعش نے متعدد حملوں کی ذمہ داری قبول کی ہے۔ان حملوں میں گذشتہ جمعہ کو قندوز میں شیعہ برادری کی مسجد میں ہونے والا خود کش حملہ اور دیگر ایسے مہلک حملے شامل ہیں۔داعش نے 2014 میں مشرقی افغانستان میں اپنے ظہور کے بعد سے کئی مہلک حملے کیے ہیں۔ شدت پسند تنظیم کو امریکا کے لیے سب سے بڑا خطرہ بھی سمجھا جاتا ہے۔دوحہ میں ہونے والی حالیہ ملاقاتیں اگست کے اواخر میں امریکی افواج کے افغانستان سے انخلا کے بعد ، 20 سالہ فوجی موجودگی کے خاتمے اور ملک میں طالبان کے اقتدار میں اضافے کے بعد پہلی ملاقات ہے ۔