لاہور: لاہور ہائیکورٹ نے سابق فوجی حکمراںریٹائرڈ جنرل پر ویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس اور مقدمہ چلانے کے لیے خصوصی عدالت کی تشکیل اور یٹائرڈ جنرل کو مجرم قرار دے کر پھانسی کی سزا سنائے جانے کی قانونی حیثیت کے حوالے سے سوال اٹھا دیے۔
جسٹس سید مظہر علی اکبر مقوی، جسٹس محمد امیر بھٹی اور جسٹس چودھری مسعود جہانگیر پر مشتمل تین ججی بنچ نے مشرف کی جانب سے داخل کی گئیں کئی عرضیوں پر، جس میں انہوں نے اپنے خلاف سنگین غداری کیس میں مجرم قرار دینے، خصوصی عدالت تشکیل دینے اور حکومت کی جانب سے شکایت درج کرنے سمیت کئی معاملات کو چیلنج کیا ہے، سماعت کی۔عدالت کے مددگار کے طو ر مقرر بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مشرف کے خلاف کیس اس وقت کے وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کی ایماءپر دائر کیا گیا تھا کیونکہ اس وقت ہونے کابینہ کے اجلاسوں میں سے کسی ایک اجلاس کے ایجنڈے میں بھی اس کا کوئی ذکر نہیں ہے۔
جبکہ بیرسٹر ظفر کا کہنا تھا کہ دفعہ6کے تحت کابینہ کی منظور ی کے بغیر مقدمہ قائم نہیں کیا جا سکتا۔ عدالت نے دو ٹوک انداز میں پوچھا کہ کیا مشرف کا معاملہ کسی کابینہ اجلاس کا ایجنڈا تھا تو ظفر نے انکار میں جواب دیا۔انہوں نے کہا کہ اس معاملہ پرکوئی کابینہ اجلاس نہیںہوا ۔
بنچ نے پوچھا کہ یہ تاریخ کا نہایت اہم معاملہ تھا،کیا کابینہ اسے ایجنڈے میںشامل کیے بغیر الگ سے اس پر غور کر سکتی ہے؟جسٹس بھٹی نے کہا کہ فوجی سربراہ کی مدت ملازمت میںتوسیع اور اس کے دوبارہ تقرر کا ایک حالیہ معاملہ تھا جس پر کابینہ میں ہمہ پہلو سماعت کی۔ لیکن جنرل مشرف کے کیس میں کہیں بھی کابینہ کاکوئی رول نظر نہیں آرہا۔