اسلام آباد:(اے یو ایس) آٹھ سال ہو گئے ہیں، ایک عدالت سے دوسری عدالت اور پھر ایک اور عدالت، لیکن کوئی بھی میرے شوہر کو بازیاب نہیں کروا سکا۔ جب میرے شوہر اغوا ہوئے تو میرا بیٹا دو سال کا تھا۔ اس نے باپ کو ٹھیک سے دیکھا بھی نہیں۔ یہ الفاظ ہیں لاہور سے لاپتہ کیے جانے والے نوید بٹ کی اہلیہ ایڈوکیٹ سعدیہ راحت کے۔ سعدیہ کے شوہر نوید بٹ حزب التحریر کے ترجمان تھے اور انہیں سال 2012 میں ان کے گھر کے باہر سے نامعلوم افراد زبردستی اپنے ساتھ لے گئے تھے۔
سعدیہ راحت کا کہنا ہے کہ اس دن کے بعد سے اب تک ہم ایک عدالت سے دوسری عدالت جا رہے ہیں، لیکن اب تک کوئی شنوائی نہیں ہو رہی۔ کمیشن برائے لاپتہ افراد نے اس بارے میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کو بازیابی حکم جاری کیا، لیکن اس کے باوجود میرے شوہر کو پیش نہیں کیا گیا۔ان کا کہنا تھا کہ تمام انٹیلی جنس ادارے ان کے شوہر کا ان کے پاس ہونے سے انکار کرتے ہیں، لیکن مجھے یقین ہے کہ وہ انہی کی تحویل میںہیں۔حالیہ دنوں میں لاپتہ افراد کے کیسز میں اسلام آباد ہائیکورٹ کی طرف سے اعلیٰ سرکاری حکام پر کروڑوں روپے کے جرمانے عائد کر دیے گئے ہیں۔اسلام آباد سے لاپتہ ایک شخص غلام قادر کے چھ سال سے بازیاب نہ ہونے پر عدالت نے پولیس، سیکرٹری داخلہ اور سیکرٹری دفاع پر ایک کروڑ روپے جرمانہ کر دیا۔اس حوالے سے وفاق نے ہائیکورٹ میں نظر ثانی کی اپیل دائر کی ہے جس کی پہلی سماعت گزشتہ روز ہوئی، جس میں عدالت نے کہا کہ جرمانہ اپنی جگہ لیکن حقیقت یہ ہے کہ بندہ غائب ہو جاتا ہے اس کا کیا کریں گے۔
جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ ہرجانہ عدالت اس لیے لگاتی ہے کہ ریاست بندے کو تلاش کرنے میں ناکام ہوتی ہے۔پراسیکیوٹر جنرل اسلام آباد سید طیب شاہ نے اس حوالے سے کہا کہ ان کیسز پر زیادہ بات نہیں کی جا سکتی، کیونکہ ان کیسز میں اپیلیں عدالت میں زیر التوا ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ریاست کا یہ حق ہے کہ وہ اگر کسی عدالتی فیصلے سے مطمئن نہ ہو تو اس پر اپیل دائر کر سکتی ہے۔پاکستان میں حالیہ عرصہ میں عدالتوں کی طرف سے لاپتہ افراد کی عدم بازیابی پر سخت احکامات جاری کیے جا رہے ہیں۔ ایک کروڑ روپے جرمانہ والا یہ پہلا کیس نہیں، بلکہ اس سے قبل تین مختلف کیسز میں عدالت کی طرف سے سرکاری حکام پر جرمانے عائد کیے گئے ہیں۔ایسا ہی ایک کیس آئی ٹی انجنئیر ساجد محمود کا ہے، ان کی اہلیہ ماہرہ ساجد نے عدالت میں گھریلو اخراجات کے لیے ایک پٹیشن دائر کی، جس پر عدالت نے ساجد محمود کے لاپتہ ہونے سے اب تک کے لیے انہیں 45 لاکھ روپے اور اس کے بعد ایک لاکھ پانچ ہزار روپے ماہانہ دینے کا کہنا ہے۔
اس کیس میں ماہرہ ساجد کے وکیل عمر گیلانی ایڈوکیٹ نے کہا کہ ریاست کسی بھی شخص کی حفاظت کی ذمہ دار ہوتی ہے۔ اور اس اگر وہ شخص لاپتہ ہو گیا ہے تو اس کی بازیابی بھی ریاست کی ذمہ داری بنتی ہے اور اس کیس میں بھی ہم نے اسی نکتہ پر بات کی اور عدالت نے اس بارے میں حتمی فیصلہ جاری کیا ہے جسے حکومت نے تسلیم بھی کر لیا ہے۔ اس پر عمل درآمد ہونا باقی ہے۔ امید ہے کہ حکومت جلد یہ ادائیگی کرے گی۔اس بارے میں پاکستان بار کونسل کے صدر عابد ساقی نے کہا کہ آئین اور قانون میں ہر شخص کی آزادی اور اس حفاظت کی ذمہ داری ریاست کی ہے۔ عدالتیں اس آئین کی نگہبان ہیں اور اسلام آباد ہائیکورٹ کی طرف سے دیا جانے والا فیصلہ عدالتوں کی طرف سے اس بارے میں احکامات پر عمل درآمد نہ ہونے کی وجہ سے غصہ کا اظہار ہے۔عابد ساقی نے کہا کہ مسنگ پرسن کیسز میں عدالتوں کی طرف سے واضح احکامات دیے جاتے ہیں، لیکن ان پر عمل درآمد نہیں ہوتا۔
پاکستان کی عدالتیں ہر شخص کی آزادی اور حفاظت کی ذمہ دار ہیں اور وہ اپنا فرض ادا کر رہی ہیں۔سعدیہ راحت کا کہنا ہے کہ ان کے شوہر کے اغوا کے بعد سے وہ شدید مشکلات کا شکار رہیں۔ ان کے تین بیٹے اور ایک بیٹی ہیں اور بچے اپنے والد کی گمشدگی کے باعث آج تک پریشان ہیں۔سعدیہ کا کہنا تھا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ میں زیرسماعت ان کی درخواست میں بھی انہوں نے حکومت کی طرف سے معاوضے کا مطالبہ کیا ہے کیونکہ ان کے شوہر کے غائب ہونے سے انہیں شدید مالی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔پاکستان میں لاپتہ افراد کے کمیشن کے مطابق اس وقت بھی لاپتہ افراد کی تعداد ڈھائی ہزار سے زائد ہے۔ اگرچہ اس بارے میں عدالتوں کی طرف سے سخت احکامات جاری کیے گئے، تاہم اب بھی کئی افراد بدستور لاپتہ ہیں جن کا الزام ریاستی اداروں پر عائد کیا جاتا ہے۔ تاہم ریاستی ادارے اور حکومت ہمیشہ اس الزام کی تردید کرتی آئی ہے۔