تہران : اقتصادی پابندیوں، سیاسی اتھل پتھل اور جنگ کے منڈلاتے خطرے سے دوچار اکثر ایرانیوں کا کہنا ہے کہ وہ اس ہفتہ ہونے والے پارلیمانی انتخابات میں ووٹ ڈالنے کے موڈ میں نہیں ہیں۔
بڑے بوجھل دل اور تلخ لہجہ میں ایرانیوں نے شکوہ کیا کہ وہ ان سیاستدنوں سے عاجز آچکے ہیں جنہوں نے اپنے قو ل کا پاس رکھا اور نہ ہی معیار زندگی بلند کیا اور ایک بھی وعدہ وفا نہیں کیا۔
ایک62سالہ شخص نے اپنی بیٹی کے سامنے جو خود بھی جمعہ کو ہونے والے پارلیمانی انتخابات کا اس لیے بائیکاٹ کر رہی ہے کہ اسے سیاست دانوں پر اعتماد نہیں رہا، کہا کہ ”ہر گز نہیں ! ہم ہر گز ووٹ نہیں ڈالیں گے“۔
ایک خاتون نے کہا کہ آج کل ایران میں ہر ایک کی زندگی دشوار ہوگئی ہے ۔ہم عاجز آچکے ہیں۔ ہم ووٹ نہ ڈال کر یہ پیغا م دینا چاہتے ہیںکہ ہم صورت حال سے مطمئن نہیں ہیں۔
صدر حسن روحانی نے، جو 2017میں دوبارہ منتخب ہوئے تھے،مزید معاشرتی اور انفرادی آزادیوں کا وعدہ کیا اور یقین دہانیاں کرائیں کہ مغرب سے راہ رسم بڑھانے کے نتائج سے ایرانیوں کو فائدہ پہنچے گا۔
لیکن بہت سے لوگوں کا کہنا ہے کہ اقتصادی گراوٹ اور اایران کے ساتھ تاریخی جوہری معاہدے سے 2018میں امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے نکل جانے کے بعد امریکہ کی نہایت سخت پابندیوں کے باعث اقتصادی حالات اور بد تر ہوجانے سے ان کی زندگی مفلوج ہو کر رہ گئی ہے۔
علاوہ ازیں ٹرمپ کی جانب سے ا سلامی جمہوریہ ایران کے خلاف زیادہ سے زیادہ دباؤ ڈالنے کی مہم چلائے جانے سے جنگ کے خطرے سے حالات اور بد ترہوتے چلے گئے۔