کسی دور میں اسرائیل کے ساتھ چین کے خوشگوار تعلقات اب تیزی سے زوال پذیر ہیں او رجس طرح جاپان سے ہندوستان تک چین نے جارحیت کی غیر وضاحتی راہ اختیار کیے ہے وہی طریق اس نے اسرائیل کے ساتھ بھی اختیار کر لیا ہے۔
یروشلم پوسٹ نے اس معاملے پر مذاکرات سے واقف ایک امریکی عہدے دار کے حوالے سے ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ گذشتہ ہفتہ امریکہ نے اسرائیل سے چین کے ساتھ خاص طور پر ان شعبوں میں جہاںسلامتی کے خطرات ہیں تعلقات منقطع کرنے کہا تھا۔یہاں تک کہ 13 مئی کو اسرائیل کے دورے کے دوران امریکی وزیر خارجہ مائک پوم پیو نے اسرائیل سے کہا تھا کہ وہ چین کے ساتھ اپنے مشترکہ پراجکٹوںمیں سے کچھ پر نظر ثانی کرے۔امریکہ کی جانب سے حالیہ دباو¿ کورونا وائرس کی وبا پھوٹنے پر امریکہ اور چین میں بڑھتی زبانی جنگ میں اضافہ کا اشارہ دیتی ہے۔
یہ غیر ملکی سرمایہ کاری کے لئے ،جو خطرے پیدا کر سکتے ہیں، مزید گہرائی سے جائزہ لینے کاعمل جاری رکھنے پر توجہ اور وبا کی روشنی میں ہنگامی حالات میں ضروری طبی آلات کے لیے چین پر انحصار میں کمی سے اسرائیل اور چین کے مابین تعلقات خراب ہو نے کا امکان ہے۔آج چینی کمپنیاں اسرائیل میں 20 بلین امریکی ڈالر سے زیادہ کے معاہدے کیے ہوئے ہیں اور مزید پر کام جاری ہے ۔ اسرائیل اس حد تک آگے بڑھ چکا ہے کہ اس نے ایران تک میں کاروبار کرنے والی چینی کمپنیوں کو اسرائیل میں بڑے بنیادی ڈھانچے پراجکٹوں کے لئے بولی لگانے کی اجازت دے رکھی ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق امریکی درخواست کی بنیاد دو محرکات پر ہے۔ سب سے پہلے تو چین کو کورونا وائرس کے پھیلنے سے دنیا کو لاعلم رکھنے بلکہ اسے دنیا سے مخفی رکھنے اور پھر امریکی ساحلوں تک اسے پہنچنے سے روکنے کے خاطر خواہ اقدامات نہ کرنے پر سزا دینا مقصود لگتا ہے ۔
مثال کے طور پر امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے جو بہت پہلے کوویڈ19- کو “چینی وائرس” کہہ چکے ہیں ، امریکہ اور یورپ پر غلط معلومات اور پروپیگنڈا حملے کے پس پشت صدر شی جن پنگ کا دماغ کارفرما ہونے کا الزام عائد کر چکے ہیں ۔ گذشتہ ہفتہ ٹرمپ نے یہ ٹوئیٹ بھی کیا کہ اس میں حکام بالا کا ہاتھ ہے۔ اس ماہ کے اوائل میںپوم پیو نے اے” بی سی کے ”دس ویک“ سے کہا تھا کہ وہ اس وبا کو آسانی سے روک سکتے تھے ، لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا۔ پوم پیو نے یہ بھی کہاکہ اس کے وافر شواہد دستیاب ہیں کہ اس وائرس کا اصل مرکز ووہان کی ایک چینی لیبارٹری ہے۔
امریکہ چین سے ناراض ہے اور اس سے چاہتا ہے کہ وہ اس کی قیمت چکائے ۔اس کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ اس کو مالی جھٹکا دیا جائے اور اسرائیل جیسے امریکی اتحادیوں کو چین کے ساتھ اپنے تجارتی اور مشترکہ بنیادی ڈھانچہ پراجکٹوں پر نظر ثانی کرنے کہا جائے ۔دوسرا محرک چینی جاسوسی کا خوف ہے۔ 2000 میں چین کو فالکن آواکس(Phalcon AWACS ) کی منصوبہ بند فروخت منسوخ کرنے کے بعد ، اسرائیل نے چین کو کسی قسم کاکوئی فوجی سازوسامان فروخت نہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ یہ اس الٹی میٹم پر مبنی فیصلہ تھا کہ اگر اسرائیل چین کو ہتھیاروں کی فروخت جاری رکھے گا تو وہ امریکی حمایت سے محروم ہو جائے گا۔
امریکہ اور اسرائیل ایک دوسرے کے ساتھ کچھ انتہائی حساس خفیہ اطلاعات کا ایک دوسرے سے تبادلہ کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ ، امریکی دفاعی ٹھیکیدار اسرائیل کو امریکہ میں ایف سی 35 کی پانچویں نسل کے ہلاکت خیز جنگی طیاروںجیسے کچھ نہایت مخصوص فوجی ساز و سامان اور اسلحہ فروخت کرتے ہیں۔امریکہ کو تشویش ہے کہ چین ،جو اسرائیل میں سڑکیں ، ٹرینیں ، سرنگیں ، بندرگاہیں اور بہت کچھ تعمیرات سمیت زیادہ تر بنیادی ڈھانچے تعمیر کر رہا ہے ، مواصلات کی ان لائنوں تک رسائی حاصل کرلے گا جس کے ذریعے اسرائیل اور امریکہ ایک دوسرے کے ساتھ معلومات کا تبادلہ کرتے ہیں۔اور اسے امریکہ کسی طور برداشت نہیں کرے گا ۔
واشنگٹن پوسٹ کے مطابق وزارت خارجہ کے ایک عہدیدار نے کہا کہ ”مجھے نہیں لگتا کہ نرمی دکھانے سے اس میں کوئی کمی آئے گی ۔حکومت اسرائیل نے اب دو سابق فوجی سربراہوںگبی اشکنازی اور بینی گانٹز کو ، جو دوسروں سے زیادہ اسرائیل اور امریکہ کے تعلقات کی اہمیت کو سمجھتے ہیں،شامل کر لیا ہے ۔ چین اسرائیل کا ایک اہم تجارتی شراکت دار ہے اور ہمیں امید ہے کہ یہ اسی طرح برقرار رہے گی لیکن واضح لکیریں کھینچنے کی ضرورت ہے اور ایسا کرنے کے لئے عصر حاضر سے بہتر وقت نہیں ہے۔