Officers involved in IG Sindh’s abduction removed from posts on recommendation of army courtتصویر سوشل میڈیا

کراچی:(اے یو ایس)پاکستان کی فوج کا کہنا ہے کہ گزشتہ ماہ کراچی میں قائدِ اعظم کے مزار میں نعرے بازی پر مسلم لیگ (ن) کے رہنما کیپٹن (ر) صفدر کی گرفتاری اور آئی جی سندھ کے ساتھ پیش آنے والے واقعات کی انکوائری کے بعد فوجی عدالت کی سفارش پر پاکستان رینجرز سندھ اور خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے متعلقہ افسران کو ا±ن کے عہدوں سے برطرف کر دیاگیا ۔ تاہم فوج نے جاری کردہ بیان میں ان افسران کے نام نہیں بتائے۔فوج کے شعبہ¿ تعلقات عامہ کے ڈائریکٹر جنرل کے بیان کے مطابق اس واقعے پر آئی جی سندھ کے تحفظات کے بعد فوج کی کورٹ آف انکوائری مکمل کر لی گئی ہے۔اور اب ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کرنے کی پاداش میںجنرل ہیڈ کوارٹر میں ان کے خلاف کارروائی کا فیصلہ کیا جائے گا۔

چیف آرمی اسٹاف کے حکم پر کی گئی انکوائری میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ 18 اور 19 اکتوبر کی درمیانی شَب پاکستان رینجرز اور سیکٹر ہیڈ کوارٹرز آئی ایس آئی کراچی کے افسران مزار قائد کی بے حرمتی کے نتیجے میں ‘شدید عوامی ردِ عمل’ سے پیدا شدہ صورتِ حال سے نمٹنے میں مصروف تھے۔گزشتہ ماہ 19 اکتوبر کو حزبِ اختلاف کی جماعتوں کے کراچی میں جلسے سے قبل مزار قائد پر حاضری کے دوران کیپٹن (ر) صفدر نے ‘مادر ملت زندہ باد’ اور ‘ووٹ کو عزت دو’ کے نعرے لگائے تھے۔سندھ حکومت نے ریٹائرڈ کیپٹن صفدر کی گرفتاری سے لاتعلقی کا اظہار کیا تھا جب کہ حزبِ اختلاف کی جماعتوں نے یہ الزام عائد کیا تھا کہ ا?ئی جی سندھ کا مقدمے کے اندراج سے انکار پر رینجرز کے اہلکار انہیں گھر سے اغوا کر کے زبردستی ساتھ لے گئے اور ریٹائرڈ کیپٹن صفدر کے خلاف کارروائی پر مجبور کیا۔بیان کے مطابق مذکورہ افسران پر مزارِ قائد کی بے حرمتی پر قانون کے مطابق بروقت کارروائی کے لیے عوام کا شدید دباو¿ تھا۔بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ تحقیقات کے مطابق ان افسروں نے شدید عوامی ردِ عمل اور تیزی سے بدلتی ہوئی

کشیدہ صورتِ حال کے بعد سندھ پولیس کے طرزِ عمل کو اپنی دانست میں ناکافی پایا۔ تاہم انکوائری رپورٹ کے مطابق مذکورہ افسران نے اس صورتِ حال پر قابو پانے کے لیے اپنی حیثیت میں زیادہ ہی جوش کا مظاہرہ کیا۔ڈی جی آئی ایس پی آر کے مطابق ذمہ دار اور تجربہ کار افسران کے طور پر انہیں ایسی ناپسندیدہ صورتِ حال سے گریز کرنا چاہیے تھا جس سے ریاست کے دو اداروں میں غلط فہمیاں پیدا ہوئیں۔ لہذٰا کورٹ آف انکوائری کی سفارشات کی روشنی میں متعلقہ افسران کو اپنی موجودہ ذمہ داریوں سے ہٹا دیا گیا ہے اور ان افسران کے خلاف فوج کے جنرل ہیڈ کوارٹرز میں ضابطے کی خلاف ورزی پر کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔اس واقعے پر سندھ حکومت کے وزرا پر مشتمل ایک تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دی گئی تھی جس کی رپورٹ ابھی آنا باقی ہے۔کمیٹی کے ذمے پولیس کی اعلیٰ قیادت کی مبینہ توہین اور ان سے بدسلوکی کی مکمل تحقیقات کا حکم دیا گیا تھا۔مسلم لیگ (ن) کی رہنما مریم نواز نے کیپٹن (ر) صفدر کی گرفتاری پر ٹوئٹ کرتے ہوئے کہا تھا کہ رات گئے آئی جی سندھ پولیس مشتاق مہر پر سیکیورٹی اداروں کی جانب سے دباو¿ ڈالا گیا، ان کے گھر کے اردگرد گاڑیاں کھڑی کر کے انہیں حساس ادارے کے دفتر جانے پر مجبور کیا گیا جس کے بعد ا±نہیں کیپٹن (ر) صفدر کے خلاف مقدمہ درج کرنے پر مجبور کیا گیا۔مریم نواز کا کہنا تھا کہ اس کے بعد پولیس نے رینجرز کی نگرانی میں کیپٹن صفدر کو مقدمے میں صبح سویرے ان کے ہوٹل سے گرفتار کیا تھا۔

تاہم جوڈیشل مجسٹریٹ نے اسی روز کیپٹن صفدر کو شخصی ضمانت پر ہی مقدمے میں رہا کرنے کا حکم دے دیا تھا۔واقعے کی تفصیلات سامنے آنے پر سندھ میں برسر اقتدار جماعت پاکستان پیپلز پارٹی اور اپوزیشن کی دیگر سیاسی جماعتوں نے شدید ردعمل کا اظہار کیا تھا اور اسے حزب اختلاف کی جماعتوں کے حال ہی میں تشکیل پانے والے پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کو توڑنے کی سازش قرار دیا تھا۔پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کیپٹن صفدر کی گرفتاری کو شرمناک عمل قرار دیتے ہوئے شدید الفاظ میں مذمت کی تھی اور کہا تھا کہ اس واقعے پر وہ شرمندہ ہیں۔بلاول بھٹو زرداری نے آرمی چیف سے مطالبہ کیا تھا کہ آئی جی سندھ کے ساتھ پیش آنے والے واقعے کی شفاف تحقیقات کرائیں جس کے بعد آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے بلاول بھٹو سے ٹیلی فونک رابطہ کر کے ا±نہیں شفاف تحقیقات کی یقین دہائی کرائی تھی۔واقعے کے بعد سندھ پولیس کے 50 سے زائد افسران نے اپنے عہدوں سے چھٹی کی درخواستیں متعلقہ افسران کو بھیج دی تھیں۔

بعض پولیس افسران نے واقعے پر آئی جی سندھ کو لکھے گئے خط میں کہا تھا کہ کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کے خلاف ایف آئی آر کے اندراج کے حالیہ واقعے میں پولیس کی ہائی کمان کو تضحیک کا نشانہ بنایا گیا اور بدسلوکی کی گئی جس سے سندھ پولیس کا مورال گرا۔معروف صحافی اویس توحید کا کہنا ہے کہ اس واقعے پر فوج کی طرف انکوائری رپورٹ کی تفصیلات سامنے آنا خوش آئند ہے اور اس طرح کی مثالیں تاریخ میں کم ہی دیکھنے میں ملتی ہیں۔میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے اویس توحید کا کہنا ہے کہ اس واقعے نے ریاست کے دو اداروں یعنی فوج اور پولیس کے درمیان دیوار کھڑی کرنے کی کوشش کی جو دہشت گردی کے خلاف جنگ اور پھر کراچی آپریشن کے درمیان شانہ بشانہ لڑے تھے۔لیکن اس انکوائری کی رپورٹ سامنے آنے، متعلقہ افسران کو ان کے عہدوں سے ہٹانے اور ان کے خلاف ضابطے کی کارروائی سے جہاں پولیس کا مورال بلند ہو گا وہیں ان دونوں اداروں کے درمیان غلط فہمیوں کا ازالہ بھی گا۔اویس توحید کے مطابق اس عمل سے شاہ سے زیادہ شاہ کے وفاداروں کو بھی پیغام گیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ تحریک انصاف کی مقامی اور مرکزی قیادت بھی اس واقعے کو پاکستان پیپلز پارٹی کی اداروں کو لڑانے کی سازش قرار دے رہی تھی اور یہ کہہ رہی تھی کہ پولیس کے پچاس سے زائد افسران نے پیپلز پارٹی کے اشارے پر چھٹی کی درخواستیں جمع کرائیں۔اویس توحید کے مطابق تحقیقات سامنے آنے سے تحریکِ انصاف کے ا±ن رہنماوں کے دعوے غلط ثابت ہوئے ہیں۔

مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نواز شریف نے آئی ایس پی آر کی جانب سے جاری بیان پر ردِ عمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ رپورٹ اصل حقائق پر پردہ ڈالنے کی ناکام کوشش ہے۔نواز شریف کا کہنا تھا کہ خود کو بچانے کے لیے جونیئر افسران کو قربان کرنے کی یہ روش قابلِ مذمت ہے۔ رپورٹ ‘ریجیکٹڈ۔’کراچی واقعے کی انکوائری رپورٹ اصل حقائق پر پردہ ڈالنے کی ناکام کوشش ہے۔ خود کو بچانے کے لئے جونیئر افسران کو قربان کرنے کی یہ روش قابلِ مذمت ہے۔ رپورٹ ریجیکٹڈ!دریں اثنا پولیس نے پیر کو عدالت میں رپورٹ جمع کرائی ہے جس میں کیپٹن صفدر اور دیگر کے خلاف بانی پاکستان محمد علی جناح کے مزار کی بے حرمتی سے متعلق کیس کو جھوٹا قرار دے دیا گیا ہے۔کیس کے تفتیشی افسر نے عدالت میں جمع کرائے گئے چالان میں کہا ہے کہ دورانِ تفتیش مدعی مقدمہ وقاص خان کو جان سے مارنے کی دھمکیاں دیے جانے کے کوئی شواہد نہیں ملے جب کہ وقاص خان بارہا بلانے پر بھی پولیس کو اپنا بیان ریکارڈ کرانے نہیں آیا۔چالان کے مطابق جائے وقوعہ کی سی سی ٹی وی فوٹیج اور کال ڈیٹا ریکارڈ سے بھی مدعی مقدمہ کی موجودگی ثابت نہیں ہوتی۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *