OIC and Kashmir issueتصویر سوشل میڈیا

سہیل انجم

پاکستان نے ہمیشہ مسئلہ کشمیر کو عالمی رنگ دینے کی کوشش کی ہے۔ وہ کبھی اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم پر اسے اٹھاتا ہے اور کبھی عالمی رہنماؤں سے ملاقات کے دوران اسے چھیڑتا ہے۔ پانچ اگست 2019 کو جب حکومت ہند نے جموں و کشمیر کو خصوصی درجہ تفویض کرنے والی دفعہ 370 کو ختم کیا تو اس کے بعد سے اس نے یہ سلسلہ اور تیز کر دیا۔ اس کی کوشش رہی ہے کہ اس مسئلے کو 57 مسلم ملکوں کی تعاون کی تنظیم او آئی سی میں بھی اٹھائے اور نہ صرف اٹھائے بلکہ او آئی سی اس معاملے میں پیش رفت کرے اور ہندوستان پر دباو¿ ڈالے کہ وہ مسئلہ کشمیر کو اس طرح حل کرے جیسے کہ پاکستان چاہتا ہے۔ لیکن او آئی سی نے ہمیشہ اس کی حوصلہ شکنی کی۔ پاکستان او آئی سی کا ایک ممبر ملک ہے۔ دنیا کے بہت سے حلقوں سے یہ آواز اٹھتی رہتی ہے کہ چونکہ ہندوستان میں مسلمانوں کی بہت بڑی آبادی ہے اس لیے اسے بھی او آئی سی کا ممبر بنایا جائے۔ او آئی سی میں پاکستان کو ایک اہمیت حاصل رہی ہے۔ لیکن اب ایسا لگتا ہے کہ اس کی پہلے والی حیثیت باقی نہیں رہ گئی۔ گزشتہ سال جب متحدہ عرب امارات میں او آئی سی کا اجلاس ہو رہا تھا تو اس وقت کی ہندوستان کی وزیر حارجہ سشما سوراج کو اس میں خصوصی مدعو کی حیثیت سے بلایا گیا تھا اور انھوں نے اس کے اجلاس میں تقریر بھی کی تھی۔ پاکستان نے سشما سوراج کو مدعو کرنے کی مخالفت کی تھی اور کہا تھا کہ اگر وہ جائیں گی تو پاکستان اجلاس کا بائیکاٹ کرے گا۔ لیکن متحدہ عرب امارات نے اس کے اعتراض اور اس کی ناراضگی کی کوئی پروا نہیں کی۔ پاکستان نے اجلاس کا بائیکاٹ کیا۔ اس کے وزیر حارجہ نے اس میں شرکت نہیں کی۔دفعہ 370 کے خاتمے کے بعد سے پاکستان کا یہ اصرار رہا ہے کہ او آئی سی مسئلہ کشمیر کو اٹھائے اور ہندوستان پر دباو¿ ڈالے کہ وہ اپنا فیصلہ واپس لے۔ ہندوستان کا ہمیشہ یہ موقف رہا ہے کہ او آئی سی کو اس معاملے میں بولنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ کشمیر کا مسئلہ دو طرفہ ہے۔ اسے ہندوستان اور پاکستان کو ہی حل کرنا ہے۔ دفعہ 370 کے خاتمے کے بارے میں اس کا موقف ہے کہ یہ خالص ہندوستان کا اندرونی معاملہ ہے۔ اس نے آئین کے دائرے میں رہ کر یہ قدم اٹھایا ہے۔ لہٰذا اس میں بھی کسی کو مداخلت کرنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔ جب پاکستان نے اس معاملے کو اٹھایا تو صرف ترکی اور ملائیشیانے اس کی تائید کی تھی۔ حالانکہ بعد میں مہاتیر محمد کے حکومت ےس ہٹنے کے بعد ملائیشیا کے موقف میں نرمی آئی ہے۔

بہر حال جب پاکستان نے کشمیر کے معاملے پر او آئی سی کا اجلاس بلانے کا مطالبہ کیا اور اس وقت او آئی کے صدر سعودی عرب نے اس کی اجازت نہیں دی تو پاکستان کے وزیر حارجہ شاہ محمود قریشی نے اپنی ناراضگی ظاہر کی اور ایک انٹرویو میں یہاں تک کہہ دیا کہ پاکستان کے عوام سعودی عرب کے شانہ بہ شانہ کھڑے رہے ہیں۔ اس کو بھی پاکستانی عوام کی خواہشات کا احترام کرنا چاہیے۔ انھوں نے ایک طرح سے دھمکی آمیز انداز میں کہا کہ اگر او آئی سی اس معاملے پر اجلاس طلب نہیں کرتا ہے تو وزیر اعظم عمران خان ہم خیال مسلم ملکوں کا ایک اجلاس پاکستان میں بلائیں گے۔ سعودی عرب نے اس پر اپنی ناراضگی جتائی تھی اور اس نے پاکستان کو جو تین بلین ڈالر کا قرض دیا تھا اس کی واپسی کا مطالبہ کیا۔ پاکستان نے چین سے ایک بلین ڈالر قرض لے کر سعودی عرب کو واپس کیا۔ بہر حال اس ناراضگی کے عالم میں نائجر کے دارالحکومت نیامی میں او آئی سی کے وزرائے خارجہ کا ایک اجلاس منعقد ہوا۔ اجلاس سے قبل پاکستان نے مطالبہ کیا تھا کہ کشمیر مسئلے کو بھی ایجنڈے میں شامل کیا جائے۔ لیکن کشمیر کو ایجنڈے میں شامل نہیں کیا گیا۔ اس نے یہ بھی کہاتھا کہ کشمیر سے متعلق رابطہ گروپ کی بھی ایک میٹنگ ہو۔ لیکن اسے بھی مسترد کر دیا گیا۔

اسلامی تعاون تنظیم کے اس اجلاس میں دوسرے موضوعات کو ایجنڈے میں شامل کیا گیا ہے۔ جن میں مسئلہ فلسطین، تشدد انتہا پسندی دہشت گردی اسلامو فوبیا اور توہین مذہب کے خلاف جنگ، غیر مسلم ملکوں میں مسلم اقلیت اور برادری کی صورت حال، عالمی عدالت انصاف میں قانونی لڑائی لڑنے کے لیے روہنگیا مسلمانوں کے لیے فنڈ کی فراہمی اور تہذیبوں ثقافتوں اور مذاہب کے درمیان تبادلہ خیال کا فروغ قابل ذکر ہیں۔ اس کے علاوہ سائنس و ٹیکنالوجی سے متعلق سیاسی انسانی سماجی اور ثقافتی ایشوز اور او آئی سی 2025 ایکشن پلان کے نفاذ سے متعلق پیش رفت اور دیگر مسائل قابل ذکر ہیں۔لیکن اجلاس کے دوران کشمیر سے متعلق ایک قرارداد منظور کی گئی اور ہندوستان سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ دفعہ 370 کے خاتمے اور دیگر فیصلے واپس لے۔ ایک سینئر تجزیہ کار، صحافی اور خبررساں ایجنسی یو این آئی اردو کے سابق ایڈیٹر شیخ منظور احمد کا کہنا ہے کہ اس قرارداد کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ اہمیت تب ہوتی جب اسے ایجنڈے میں شامل کیا گیا ہوتا۔ او آئی سی کا چارٹر بتاتا ہے کہ اجلاس کے دوران کوئی بھی ممبر ملک کوئی بھی مسئلہ اٹھا سکتا ہے اور اسے او آئی سی کا موقف مانا جائے گا۔ لیکن اس کو کوئی خاص اہمیت حاصل نہیں ہوگی۔ شیخ منظور احمد کے مطابق اجلاس کے ایجنڈے میں شامل کیے جالے والے ایشوز کو پہلے ممبر ملکوں کو بھیجا جاتا ہے۔ جب سب اس کی منظوری دے دیتے ہیں تب وہ ایجنڈے کا حصہ بنتے ہیں۔ ممکن ہے کہ پاکستان نے کشمیر کے مسئلے کو بھیجا ہو اور ممبر ملکوں نے اسے ایجنڈے میں شامل کرنے کی مخالفت کی ہو۔ اسی لیے وہ ایجنڈے میں شامل نہیں ہو سکا۔ البتہ ایک ممبر ملک کی حیثیت سے جب پاکستان نے اسے اٹھایا تو اسے منظور کر لیا گیا۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اب دنیا کے حالات بدل رہے ہیں۔

او آئی سی کے ممبر ملکوں کو بھی اس کا احساس ہے۔ لہٰذا او آئی سی کو اب مسئلہ کشمیر سے وہ دلچسپی نہیں رہ گئی جو پہلے ہوا کرتی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ اسے شامل کرنے کے بجائے دوسرے ایشوز شامل کیے گئے۔ بہر حال ہندوستان نے او آئی سی کی اس قرارداد کو مسترد کر دیا ہے اور کہا کہ اسے اس معاملے میں بولنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ دیگر تجزیہ کار بھی اس قرارداد کو کوئی اہمیت نہیں دیتے۔ ہندوستان کے تھنک ٹینک ”آبزرور ریسرچ فاو¿نڈیشن“ کے سینیئر رکن، صحافی اور تجزیہ کار سوشانت سرین کہتے ہیں کہ او آئی سی کے اعلامیے کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔او آئی سی کئی دہائیوں سے پاکستان کے کہنے پر بے معنی قسم کے بیانات دیتی رہی ہے اور ہندوستان یہ کہہ کر اپنا ردعمل ظاہر کرتا رہا ہے کہ او آئی سی کے اس معاملے میں مداخلت کا کوئی جواز نہیں ہے۔ اس حد تک یہ ایک روایتی بیان بازی ہے۔ او آئی سی کے ارکان خود ہندوستان کو علیحدگی میں بتائیں گے کہ اس قرارداد کے کوئی معنی نہیں ہیں اور ان کے ہندوستان سے تعلقات پر اس کا کوئی اثر نہیں ہو گا۔ ایسی قراردادوں کی لفاظی کے علاوہ کوئی حیثیت نہیں ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ”یہی پاکستانی جو اس وقت جشن منا رہے ہیں وہی او آئی سی کو ایک بغیر دانتوں والا شیر اور ایک غیر موثر تنظیم کہہ کر مسترد کرتے رہے ہیں جب اس میں کشمیر کے معاملے پر غور نہیں ہو رہا تھا۔ اب پاکستان کی لکھی گئی قرارداد کے مسودے کو بغیر بحث کیے منظور کر لیا گیا ہے“۔ اس دوران پاکستان کو او آئی سی کے اندر عربوں، ترکی اور ایران کے مختلف دھڑوں کے ساتھ اپنے تعلقات میں توازن رکھنے کی تگ و دو کرنا پڑ رہی ہے۔ پاکستان کے تجزیہ کار بھی اس کو کوئی بہت زیادہ اہمیت نہیں دیتے۔ ان کے مطابق بس ایک قرارداد منظور کر لی گئی ہے اور کچھ نہیں۔ اگر یہ قرارداد ایجنڈے کا حصہ ہوتی تب اس کی اہمیت ہوتی۔دراصل عرب اور مسلم ملکوں کے ہندوستان کے ساتھ اچھے رشتے ہیں۔ وہ ہندوستان کو ایک بڑے بازار کے طور پر بھی دیکھتے ہیں۔ اس لیے وہ ہندوستان سے اپنے تعلقات کو بڑی اہمیت دیتے ہیں۔ ویسے بھی پاکستان دہشت گردی کے حوالے سے پوری دنیا میں بدنام ہے۔ عالمی سطح پر اس کو وہ وقار حاصل نہیں ہے جو ہندوستان کے ہمسائے میں ایک مسلم ملک ہونے کی وجہ سے اسے حاصل ہونی چاہیے تھی۔ بہر حال او آئی سی کے مذکورہ اجلاس میں پاکستان کی پیش کردہ قرارداد کا منظور کیا جانا پاکستان کے لیے دل بہلانے کا سامان تو ہو سکتا ہے لیکن اس کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔
sanjumdelhi@gmail.com

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *