انشال راؤ
11ستمبر 2001کے بعد پاکستان دہشت گردی کےخلاف امریکی جنگ میں ایک مرکزی اتحادی کے طور پر سامنے آیا ہے، اس کی سیاسی تقدیر جنگجوو±ں کےخلاف عالمی جدوجہد کے تناظر میں مسخ ہوچکی ہے جنہیں پاکستان میں گویا ایک طرح کاٹھکانہ میسر آچکا تھا، عراق، شام، لیبیا کے علاوہ دہشتگردی کے خلاف جنگ دنیا کے کسی بھی ملک سے زیادہ پاکستان کے گنجان آباد علاقوں اورقبائلی علاقوں کی گلیوں میں زیادہ شدت کے ساتھ لڑی جارہی ہے ۔
دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کے متحرک کردار کی اہمیت کے مقابلے میں انسانی حقوق، سماجی و سیاسی اعتبار سے سب سے زیادہ اہمیت اختیار کرچکا ہے۔ امریکہ و چین کی باہمی چپقلش، بھارت کے ایشیائی ٹائیگر بننے اور چین کی جگہ لینے کے خواب میں پاکستان سب سے زیادہ اہمیت اختیار کرچکا ہے اسی وجہ سے پاکستان کو بیرونی قوتوں نے شدید ترین متاثر کیا جس کے نتیجے میں ریاست پاکستان معاشی، سیاسی و سماجی طور پر عدم استحکام کا شکار ہوکر بکھر رہی تھی، لوگ گروہوں میں تقسیم ہوتے جارہے تھے، کسی بھی قوم کے وجود و استحکام کے لیے باہمی اتحاد سب سے زیادہ اہم ہوتا ہے اور پاکستان جیسا کہ سیاسی عدم استحکام و سیاسی انتشار کا تو تین دہائیوں سے ہی لپیٹ میں ہے اس صورتحال میں قوم کو یکجا رکھنے کا مرکز اگر کوئی رہا تو وہ ایک ادارہ افواج پاکستان کا رہا جس پر قوم کو بحیثیت مجموعی اعتماد ہے اور قوم کے اتحاد کا مرکز ہے، معمر قذافی کا مشہور قول ہے کہ “If the Sun lost its gravity, its gases would explode & its unity would no longer exist” کے مصداق افواج پاکستان کو پاکستان میں سورج کی کشش کی سی حیثیت حاصل ہے جو تمام طبقات و لسانی یونٹس کے اتحاد کو قائم رکھے ہوے ہے، اس بات کو پاکستانیوں سے زیادہ بیرونی عناصر بہتر سمجھتے ہیں یہی وجہ ہے کہ افواج پاکستان کو ہر طرح سے نشانہ بنایا گیا ۔
پہلے فاٹا میں ٹی ٹی پی کو کھڑا کرکے جنگ میں جھونکا گیا تو بلوچستان میں شورش کھڑی کی گئی جب افواج پاکستان دہشت گردی پر کنٹرول حاصل کرچکی تو طرح طرح کے پروپیگنڈے، بے بنیاد الزامات، افواہیں گھڑ کر افواج پاکستان کیخلاف لوگوں کے دلوں میں زہر بھرنے کی مذموم کوششیں کی جاتی رہیں ایسے میں افواج پاکستان کو سیاسی طبقے نے بھی دانستہ و غیردانستہ تنہا چھوڑ دیا اور مخصوص ایجنڈے پہ عمل پیرا چند میڈیا پرسنز تو دشمنوں سے بھی چار ہاتھ آگے ہی نظر آئے، جب افواج پاکستان تنہائی کا شکار تھی جب قوم لسانی، گروہی و علاقائی طور پر تقسیم در تقسیم ہوتی جارہی تھی تو ایک سیاسی قیادت عمران خان آگے آئے اور افواج پاکستان کیساتھ کھڑے ہوے، کرپٹ عناصر کے خلاف اعلان جہاد کیا اور سب سے بڑھ کر تمام پاکستانیوں کو ایک پیج پہ لانے کے لیے اہم کردار ادا کیا ۔
آج بیشک کوئی مخالفت برائے مخالفت میں عمران خان کی حکومت پر ہزارہا الزامات لگاتا رہے مگر اس حقیقت کو جھٹلا نہیں سکتے کہ یہ عمران خان ہی کی کامیابی ہے کہ لوگ آج اسٹیٹس کو سے بیزاری کا اظہار کرتے ہیں، یہ عمران خان ہی کا کارنامہ ہے جو لوگ کرپشن کو لعنت سمجھ کر کرپٹ عناصر سے نفرت کرتے ہیں ورنہ قوم میں کرپشن کو تو معاشرتی ج±ز بنا کر شامل کردیا گیا تھا، یہ ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ چکے ہیں کہ قوم سندھی مہاجر پنجابی پٹھان بلوچ میں بٹ چکی تھی تو تحریک انصاف نے پاکستانی بن کر دکھایا، آج بیشک حکومت پر مہنگائی کی وجہ سے تنقید کی جائے مگر اس کی ذمہ داری سے ان لوگوں کو بری الذمہ کیسے قرار دیا جاسکتا ہے جو قرضوں کے انبار لگاتے رہے، منی لانڈرنگ و کرپشن جن کی آنکھوں کے سامنے عروج پر رہی اور وہ کسی مخصوص وجہ سے اسے نظرانداز کیے رہے، سب سے بڑھ کر قوم پر احسان تحریک انصاف بالخصوص کپتان کا کوئی ہے تو وہ یہ ہے کہ قوم کے سامنے سب کے اصلی چہرے لے آیا وہ ایسے کہ کل تک یہ سارے سیاستدان ایکدوسرے کے دشمن تھے عام لوگ ان کی وجہ سے آپس میں لڑتے جھگڑتے رہے مگر کپتان کو سلام ہے کہ اس نے یہ کر دکھایا کہ وہ سب لوگ جو بظاہر دشمن تھے اندر سے ایک تھے آج کھل کر قوم کے سامنے آگئے کہ یہ تو سب ایک ہیں تھے ایک پتہ نہیں رہیںگے کہ نہیں ۔
اس کے علاوہ اگر پاکستان کی مجموعی صورتحال کا سطحی جائزہ لیا جائے تو ریاست کو اندرونی و بیرونی سطح پر مختلف چیلنجز کا سامنا ہے جن میں بیرونی سازشیں، معاشی جنگ، عدل و انصاف، لاقانونیت، گورننس کے مسائل سرفہرست ہیں جن پر قابو پانے کے لیے موجودہ حکومت بالخصوص کپتان ایڑی چوٹی کا زور لگارہے ہیں بدقسمتی سے انہیں جو ٹیم میسر آئی ان میں اسد عمر، عثمان بزدار، شوکت یوسفزئی، علی زیدی و دیگر ایک دو کے سوا اس قابل نہیں جو خان صاحب کا خواب تھا تاہم پھر بھی حکومت کی مجموعی کارکردگی بہتر ہی رہی ہے کیونکہ انہیں بیک وقت بہت سے چیلنجز کا بھی سامنا ہے اور بیوروکریسی سے میڈیاکریسی، اپوزیشن سے اتحادی اور عالمی قوتوں سے بھی الجھنا پڑ رہا ہے دوسری طرف افواج پاکستان کے لیے جو کردار عمران خان نے ادا کیا وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں، اگر یہ جماعت پچھلے دو تین سال افواج پاکستان کا ساتھ نہ دیتی تو کوئی بعید نہیں تھی کہ دشمنان پاکستان تو اپنا دیرینہ خواب پورا ہوتے دیکھنے کو تیار تھے اور پاکستان کی گلی گلی عراق، شام، لیبیا کا منظر پیش کر رہی ہوتی۔