One part of the world's most powerful magnet completedتصویر سوشل میڈیا

پیرس:(اے یو ایس )آب و ہوا کی تبدیلی کے خلاف جنگ میں دو براعظموں میں ایک ساتھ کی جانے والی کوششوں میں سائنس دانوں نے ایک اہم سنگ میل عبور کرتے ہوئے ایک بہت بڑا مقناطیس تیار کیا ہے، جس سے بڑے پیمانے پر توانائی حاصل کی جا سکے گی۔ گذشتہ دنوں جنوبی فرانس میں بین الاقوامی تھرمونیوکلیئر تجرباتی ری ایکٹر کے سائنس دانوں نے ایک بہت بڑے مقناطیس کے پہلے حصے کو خصوصی انتظامات کے تحت ٹرانسپورٹ کیا۔ سائنس دانوں کا دعویٰ ہے کہ یہ مقناطیس اتنا طاقت ور ہے کہ وہ ایک طیارہ بردار بحری جہاز کو کھینچ سکتا ہے۔مکمل ہونے کے بعد یہ مقناطیس تقریباً 60 فٹ اونچا اور اس کا قطر لگ بھگ 14 فٹ ہو گا۔ یہ مقناطیس ایک بہت بڑے جوہری بجلی گھر کا اہم حصہ ہے۔ اس بجلی گھر میں توانائی کے جوہری اخراج کے اصول کے تحت بجلی پیدا کی جائے گی۔ اس منصوبے پر 35 ممالک مل کر کام کر رہے ہیں۔میساچوسٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کے سائنس دانوں اور ایک نجی کمپنی نے اس ہفتے علیحدہ علیحدہ اعلان کیا کہ انہوں نے بھی دنیا کے سب سے طاقت ور ہائی ٹمپریچر سپر کنڈکٹنگ مقناطیس کے کامیاب ٹیسٹ کے ساتھ ایک سنگ میل عبور کر لیا ہے، جس سے اس قدر زیادہ توانائی خارج ہو گی جو گویا زمین پر ایک سورج بنانے کے مترادف ہے۔

عمومی طور پر فشن ری ایکٹرز سے تابکاری خارج ہوتی ہے جو بہت زیادہ نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہے، اس کے برعکس اس مقناطیس کو جس ری ایکٹر میں استعمال کیا جائے گا اس سے تابکاری خارج نہیں ہو گی۔یونان میں خشک موسم کے باعث ساحلی علاقے کے قریب جنگلات میں لگنے والی آگ کے دھوئیں نے ایک بڑے علاقے کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔مذکورہ ری ایکٹر قدرتی اصول پر کام کرے گا جس طرح کائنات میں ستاروں میں ہائیڈروجن ایٹموں کے ملنے سے ہیلیم کا ایٹم بننے کے ساتھ بڑے پیمانے پر توانائی خارج ہوتی ہے۔سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ ایٹمی فیوڑن سے بڑے پیمانے پر حرارت خارج ہوتی ہے۔ مصنوعی طریقے سے توانائی پیدا کرنے کے لیے بہت زیادہ حرارت اور دباو¿ کی ضرورت پڑتی ہے۔ یہ مقناطیس اسی مقصد کے لیے تیار کیا جا رہا ہے۔سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ اس منصوبے کا، جسے آئی ٹی ای آر کہا جاتا ہے، 75 فیصد کام مکمل ہو چکا ہے اور 2026 کے شروع تک یہ ری ایکٹر تیار ہو جائے گا۔آئی ٹی ای آر کے ترجمان لیبن کوبلنٹز نے کہا ہے کہ اپنی نوعیت کے ناقابل یقین قوت رکھنے والے اس مقناطیس کے ہر حصے کی تیاری پر ہمیں خوشی ہو گی اور ہمارے اعتماد میں اضافہ ہو گا اور ہم مستقبل قریب میں اسے مکمل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔اس منصوبے کا ہدف 2035 تک اس سے جوہری عمل کے آغاز کے لیے درکار توانائی پیدا کرنا ہے۔

دوسری جانب مسیاچوسٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کے سائنس دانوں نے آئی ٹی ای آر کی کوششوں کو سراہتے ہوئے کہا ہے کہ وہ ان سے دو گنا زیادہ طاقت ور مقناطیس بنانے میں کامیاب ہو گئے ہیں، جس کا حجم اس سے تقریباً 40 گنا کم ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ 2030 کے عشرے میں اپنا فیوڑن سسٹم تیار کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔اس پراجیکٹ کے حامیوں کا کہنا ہے کہ اگر یہ ناکام ہو بھی جائے تو بھی اس منصوبے میں شامل ممالک کے سائنس دان ایک ایسی تکنیکی مہارت حاصل کریں گے جسے دوسرے شعبوں میں استعمال کیا جا سکے گا۔تقریباً 20 ارب ڈالر کے اس منصوبے میں امریکہ، روس، چین، جاپان، ہندستان ، جنوبی کوریا اور یورپ کے کئی ممالک شامل ہیں۔جنرل ایٹمکس میں انجینئرنگ اور پراجیکٹس کے ڈائریکٹر جان سمتھ کا کہنا ہے کہ مقناطیس کے پرزے بنانے اور انہیں منتقل کرنے کے لیے کئی سال درکار ہیں، جن میں ڈھائی لاکھ پاؤڈ وزنی کوائل بھی شامل ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ آئی ٹی ای آر کا ہدف یہ ثابت کرنا ہے کہ فیوژن توانائی کا حصول ایک قابل عمل اور معاشی طور پر فائدہ مند طریقہ ہے۔

اس عمل کے ذریعے بڑے پیمانے پر شفاف توانائی حاصل کی جا سکتی ہے۔اسمتھ نے بتایا کہ یہ منصوبہ آب و ہوا کی تبدیلیوں اور گلوبل وارمنگ کو کنٹرول کرنے میں معاون ثابت ہو سکتا ہے کیونکہ اس کی مدد سے پیدا ہونے والی توانائی سے گرین ہاو¿س گیسیں خارج نہیں ہوں گی۔ اور اس منصوبے کی کامیابی کی صورت میں 2050 میں گرین ہاو¿س گیسوں کا اخراج صفر تک لانے کا ہدف حاصل کرنے میں مدد ملے گی۔اسمتھ نے اس منصوبے کی کثیر لاگت کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ بلاشبہ یہ ایک مہنگا پراجیکٹ ہے۔ لیکن اگر اس کا موازنہ آب و ہوا کی تبدیلی اور گلوبل وارمنگ سے پہنچنے والے نقصانات سے کیا جائے تو یہ انتہائی کم قیمت ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *