اسلام آباد:ڈان کی خبر کے مطابق ، پیر کو پاکستان سینیٹ میں حزب اختلاف کے اراکین نے بلوچ حقوق کارکن کارکن کریمہ بلوچ کی ، جن کی گزشتہ ماہ کناڈا میں پراسرار حالات میں موت ہوگئی تھی ، میت کے ساتھ ’گھناو¿نی حرکت ‘پر تشویش کا اظہار کیا ۔ میت کے پاکستان پہنچتے ہی پاکستانی حکام نے اسے اپنے قبضہ میں کر لیا اور زبردستی کر کے میت کو ائیرپورٹ سے سیدھے اس کے آبائی گاو¿ں لے گئے۔
بعدازاں ان کے آخری رسوم میں شرکت کرنے کے لئے آنے والے ہزاروں افراد کو جنازے کے آس پاس تک جانے کی اجازت نہیں دی اور خاندان کے چند افراد اور پڑوسیوں کے ساتھ مل کر فوج کی نگرانی میں دفن کردیا۔ ایک بلوچ سماجی کارکن لطیف جوہر بلوچ نے ایک ٹویٹ میں کہا کہ اس کی تجہیز و تکفین سے قبل ، ضلع میں موبائل سروس معطل کردی گئی تھی اور ٹمپ اور اس کے آس پاس کے علاقوں میں سخت لاک ڈاﺅن لگالیا گیا تھاپاکستانی حکام نے بلوچستان کے علاقے کیچ میں مواصلات کے تمام نظام بند کردیئے۔ کریمہ بلوچ کے آبائی شہر ٹمپ کے تمام داخلی راستے بند ہیں۔
ہمیں نہیں معلوم کہ پاکستان کی سیکیورٹی فورسز کریمہ کے جسد خاکی اور اس کے کنبہ کے ممبران کے ساتھ کیا کررہی ہے جو لاش وصول کرنے گئے تھے۔”۔کریمہ کی موت نے پورے یورپ اور شمالی امریکہ میں احتجاج کو جنم دیا اس کے بعد بلوچ حامیوں نے ٹورنٹو ، برلن اور ہالینڈ میں سڑکوں پر نکل کر کناڈاکی حکومت سے تحقیقات کا مطالبہ کیا۔ایک اور کارکن نے کہا کہ کریمہ نہ صرف ایک زبردست رہنما ہی تھی بلکہ حیرت انگیز طور پر نرم مزاج شخصیت تھیں۔ وہ شائستہ اور ہمدرد تھی۔ جب بھی وہ کسی لاپتہ مرد اور بہنوں کی تصاویر دیکھتی تو اسے دکھ محسوس ہوتا تھا۔ انہوں نے ہمیشہ ہی بلوچ خواتین کی حوصلہ افزائی کی ، ان کی دیکھ بھال کی۔