Opposition Particularly congress should learn from BJP on how to play the political gameتصویر سوشل میڈیا

سہیل انجم

اس وقت ملک کی مختلف ریاستوں بالخصوص پنجاب اور ہریانہ کے کسان سڑکوں پر ہیں۔ وہ حکومت کے ذریعے منظور کردہ زرعی قوانین کو واپس لینے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ حکومت ان سے بات چیت کر رہی ہے لیکن ابھی تک بات چیت کے تمام ادوار ناکام ثابت ہوئے ہیں۔ حکومت ان قوانین کو واپس لینے کے لیے تیار نہیں ہے اور کسان ان کی واپسی پر بضد ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ جب تک یہ قوانین واپس نہیں ہوں گے وہ واپس نہیں جائیں گے۔ حکومت کا کہنا ہے کہ یہ قوانین کسانوں کے بھلے کے لیے بنائے گئے ہیں اور ان سے ان کو پہلے کے مقابلے میں کہیں زیادہ فائدہ ہوگا اور کہیں زیادہ سہولتیں میسر آئیں گی۔ جبکہ کسانوں کا الزام ہے کہ ان قوانین سے نجی کمپنیوں کو فائدہ پہنچے گا اور زرعی شعبے پر بھی کارپوریٹ گھرانوں کی اجارہ داری قائم ہو جائے گی۔ بہر حال گفتگو کا سلسلہ جاری ہے اور توقع ہے کہ کوئی نہ کوئی حل نکل آئے گا۔ حکومت کا الزام ہے کہ اپوزیشن کسانوں کو ورغلا رہا ہے اور وہ اس احتجاج کو ہوا دے کر ملک کا ماحول خراب کرانے کی کوشش کر رہا ہے۔ جب بھی ملک میں ایسی کوئی تحریک چلتی ہے یا کوئی احتجاج ہوتا جس کی زد حکومت پر پڑتی ہو تو اپوزیشن اس میں کود پڑتی ہے۔

اپوزیشن کا کام ہی ہے حکومت کے لیے مصیبتیں پیدا کرنا تاکہ اس کی اپنی سیاست چلتی رہے۔ یہ کوئی اسی حکومت میں نہیں ہو رہا ہے بلکہ ماضی میں بھی ہوتا رہا ہے۔ وہ پارٹیاں جو اپوزیشن میں ہوتی ہیں وہ ایسی باتوں کو ہوا دیتی ہیں اور جب وہ حکومت میں آجاتی ہیں تو اس قسم کی باتوں سے بچنے کی کوشش کرتی ہیں۔ جمہوریت میں یہی ہوتا آیا ہے۔ اب بھی ہو رہا ہے اور آگے بھی ہوتا رہے گا۔ تاہم ہندوستان کی اپوزیشن جماعتیں اس وقت کسان تحریک کے زور پر خود کو زندہ کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ اصل اپوزیشن جماعت کانگریس جو کہ ایک مردہ گھوڑے میں تبدیل ہو گئی ہے اس کے سہارے اپنے اندر جان ڈالنے کی کوشش کر رہی ہے۔ اسی طرح اتر پردیش میں سماجوادی پارٹی بھی ہے جو 2017 کے اسمبلی انتخابات میں شکست کھانے کے بعد خاموش بیٹھی ہوئی تھی اب سڑکوں پر اتر آئی ہے۔ بی ایس پی رہنما مایاوتی بھی کسانوں کے حق میں بیان دے کر اپنی مردہ سیاست کو زندہ کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ بائیں بازو کی جانب سے بھی کچھ اسی قسم کی سرگرمیاں جاری ہیں۔ لیکن کیا یہ وقتی ابال اپوزیشن جماعتوں کو کوئی فائدہ پہنچا سکتا ہے۔ اس کی امید بہت کم ہے۔ اس قسم کے عارضی واقعات سے کبھی بھی کسی سیاسی پارٹی میں جان نہیں پڑی ہے۔ البتہ اگر عوام حکومت سے ناراض ہو جائیں اور وہ اس حکومت کو اکھاڑ پھینکنا چاہیں تو ایسی تحریکیں مددگار ضرور ثابت ہوتی ہیں۔ جیسے کہ من موہن سنگھ کے زمانے میں کرپشن کے خلاف دہلی کے رام لیلا میدان میں چلنے والی انا ہزارے کی تحریک تھی۔ اس سے بی جے پی کو فائدہ پہنچا اور وہ اقتدار میں آگئی۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ عوام کے ذہنوں میں یہ بات بیٹھ گئی تھی کہ موجودہ حکومت کرپشن میں لت پت ہے اور اسے اب ہٹا دینا چاہیے۔ لہٰذا الیکشن میں اس حکومت کا خاتمہ ہو گیا۔

دراصل اپوزیشن پارٹیوں اور بالخصوص کانگریس کو زندہ رہنے کے لیے اس سے آگے جانا ہوگا۔ اسے بی جے پی سے سیکھنا ہوگا۔ اگلا پارلیمانی الیکشن 2024 میں ہے لیکن بی جے پی نے بہت پہلے سے ہی اس کی تیاری کر رکھی ہے اور اس کے لیڈران دورے پر دورہ کر رہے ہیں۔ بی جے پی صدر جے پی نڈا نے چار ماہ کے ملک گیر دورے کا پلان بنایا ہوا ہے۔ بی جے پی بہت دور اندیش پارٹی ہے۔ وہ صرف اپنے پیروں کے نیچے نہیں دیکھتی بلکہ بہت دور تک دیکھتی ہے اور دور نظر آنے والے مناظر کی روشنی میں حکمت عملی تیار کرتی یا سیاسی داو¿ چلتی ہے۔ اس کو یہ حقیقت معلوم ہو گئی ہے کہ اگر حکومت میں رہنا ہے تو جو سب سے نچلے پائیدان پر بٹھا ہوا شہری ہے اس تک ہمیں پہنچنا ہوگا اور وہ اس تک پہنچنے کی کوشش کر رہی ہے۔ اس کی نگاہ میں پنچایت انتخابات کی بھی وہی اہمیت ہے جو پارلیمانی انتخابات کی ہے۔ وہ بالکل نچلی سطح پر اپنی پوزیشن مضبوط کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ اس کی تازہ مثال حیدر آباد کے میونسپل انتخابات ہیں جہاں بی جے پی کے سارے بڑے رہنما پہنچ گئے اور اس کا اسے فائدہ پہنچا۔ اس کی نشستیں بہت زیادہ بڑھ گئیں۔ صورت حال یہ ہو گئی کہ کارپوریشن میں کسی بھی پارٹی کو اکثریت حاصل نہیں ہوئی۔

پہلے ٹی آر ایس کو اکثریت حاصل تھی مگر وہ پہلے والی کارکردگی نہیں دکھا پائی۔ یاد رہے کہ میونسپل کارپوریشن میں بی جے پی کی یہ محنت اگلے سال ہونے والے اسمبلی انتخابات میں کام آئے گی اور وہ مقامی لوگ جنھیں بی جے پی نے بہت زیادہ اہمیت دی ہے وہی اسمبلی انتخابات میں اس کے لیے ریڑھ کی ہڈی ثابت ہوں گے۔ اسی طرح جموں و کشمیر میں مقامی انتخابات میں بھی بی جے پی نے زبردست محنت کی جس کا اسے فائدہ پہنچ رہا ہے۔ پہلے صرف جموں تک بی جے پی محدود تھی مگر اب وہ کشمیر میں بھی اپنی موجودگی درج کرا رہی ہے۔ وہاں بھی اب اس کی شاخیں قائم ہو گئی ہیں اور بہت سے مسلمان اس کے ساتھ آگئے ہیں۔ اسی طرح دوسری ریاستوں کے مقامی انتخابات میں بھی بی جے پی اتنی ہی محنت کرتی ہے جتنی کہ پارلیمانی اور اسمبلی انتخابات میں کرتی ہے۔ مقامی انتخابات میں کامیابی کو بی جے پی حکومت کی پالیسیوں کی تائید کے طور پر پیش کرتی ہے اور اس میں وہ حق بجانب بھی ہے۔ ابھی راجستھان میں مقامی انتخابات ہوئے ہیں جہاں بی جے پی کو کامیابی ملی ہے۔ بی جے پی لیڈروں کا کہنا ہے کہ یہ کامیابی اس بات کا ثبوت ہے کہ عوام حکومت کی پالیسیوں کے حق میں ہیں۔کانگریس اور دوسری اپوزیشن جماعتوں کے نزدیک مقامی انتخابات کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ ان کی نظریں صرف پارلیمانی اور اسمبلی انتخابات پر مرکوز رہتی ہیں۔ یہ ان کی بہت بڑی بھول ہے۔ کوئی بھی الیکشن ہو اس میں اہم رول مقامی لوگوں کا ہی ہوتا ہے۔ اگر کسی پولنگ بوتھ پر کسی پارٹی کے لوگ یا ایجنٹ نہیں ہیں تو اسے سمجھ لینا چاہیے کہ اس کے حق میں ووٹ بھی نہیں پڑے گا۔

بی جے پی کے سابق صدر امت شاہ نے اس حقیقت کو سب سے پہلے پہچانا تھا۔ لہٰذا انھوں نے سب سے زیادہ توجہ بوتھ پر ہی دی۔ انھوں نے پنا پرمکھ بنائے۔ یعنی ہر بوتھ پر کچھ ذمہ داروں کو مقرر کیا اور ان کو ایک ایک ورق دیا جس پر اس کے تحت آنے والے رائے دہندگان کے نام ہوتے ہیں۔ اس کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ ان تمام ووٹروں سے رابط کرے اور انھیں بی جے پی کے حق میں ووٹ دینے کے لیے آمادہ کرے۔ یہ بہت اہم کام ہے۔ اگر کسی پارٹی نے مقامی سطح پر میدان ہموار کر لیا تو اس کی کامیابی کے دروازے کھلنے شروع ہو جاتے ہیں۔ اسی طرح دوسرے لوگوں کو بھی پارٹی سے جوڑنے کے لیے بی جے پی بہت کچھ کرتی ہے۔ ادھر کانگریس کا حال یہ ہے کہ ایک عرصے سے اس کا کوئی مستقل اور باضابطہ صدر ہی نہیں ہے۔ راہل گاندھی کو بنایا گیا تھا مگر وہ پارلیمانی انتخابات میں شرمناک شکست کے بعد رسی تڑا کر بھاگ کھڑے ہوئے۔ بہت دنوں تک کوئی صدر ہی نہیں رہا۔ صدر بنانے کی آوازیں اٹھتی رہیں۔ پھر گھوم پھر کر سونیا گاندھی تک لوگ پہنچے۔ انھیں کاگزار صدر بنا دیا گیا۔

مستقل صدر اب بھی کوئی نہیں ہے۔ اگر اس سلسلے میں کچھ سینئر لیڈر آواز اٹھاتے بھی ہیں تو نہرو گاندھی خاندان کے وفادار کود پڑتے ہیں اور انھیں پارٹی کا غدار ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ انھیں اہم منصبوں سے ہٹا دیا جاتا ہے اور ان سے ذمہ داریاں چھین لی جاتی ہیں۔ جبکہ ضرورت اس بات کی ہے کہ ان کی آوازوں پر کان دھرا جائے اور ان کی شکایتوں کو سنا جائے اور پارٹی کے حق میں انھیں دور کیا جائے۔ لیکن ایسا کرنے کے بجائے انھیں پارٹی چھوڑنے کا مشورہ دے دیا جاتا ہے۔ جہاں تک راہل گاندھی کی بات ہے تو وہ صرف ٹویٹر پر بیان جاری کرتے ہیں۔ ان کو زمینی سطح پر کام کرنے کی اہمیت کا اندازہ ہی نہیں ہے۔ غالباً وہ سمجھتے ہیں ٹویٹر پر حکومت کے خلاف اور خاص طور پر وزیر اعظم کے خلاف بیان بازی کرنے سے وہ اس حکومت کو اکھاڑ پھینکیں گے۔ یہ ان کی سراسر نادانی بلکہ بچپنا ہے۔ سیاست میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے ڈرائنگ روم میں بیٹھ کر چالیں چلنے کی نہیں بلکہ سڑک پر اتر پر عوامی مسائل کے لیے لڑنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ کانگریس میں اس جذبے کا فقدان ہے۔ جب تک وہ اپنے اندر تبدیلی نہیں لائے گی وہ سیاست میں کامیاب نہیں ہو سکتی۔ اسی طرح دیگر اپوزیشن جماعتیں بھی جب تک سڑکوں پر نہیں اتریں گی اور الیکشن جیتنے کا گُر بی جے پی سے نہیں سیکھیں گی وہ کامیاب نہیں ہو سکیں گی۔
sanjumdelhi@gmail.com

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *