Over 160 killed, 6,000 held in Kazakhstan unrestتصویر سوشل میڈیا

واشنگٹن: (اے یو ایس)ذرائع ابلاغ نے وزارت صحت کے حوالے سے بتایا کہ توانائی سے مالا مال 19 ملین آبادی والے ملک میں رواں ہفتے ہونے والے پرتشدد فسادات کے بعد قازقستان میں 160 سے زائد افراد ہلاک اور 9000 سے زائد گرفتار کیے جا چکے ہیں۔ان اعداد و شمار کی آزادانہ طور پر تصدیق نہیں کی گئی، حکام کی جانب سے پچھلے ٹول کے مقابلے میں نمایاں اضافہ کی نشاندہی کرتے ہیں جنہوں نے کہا تھا کہ 26 مسلح مجرم مارے گئے ہیں اور 16 سیکیورٹی اہلکار ہلاک ہو چکے ہیں۔ قازقستان کی وزارت داخلہ کے مطابق پچھلے ہفتے کے دوران پرتشدد احتجاج میں ملوث 9 ہزار 900 افراد کو گرفتار کیا جاچکا ہے۔یہ خبر ایسے وقت سامنے آئی ہے کہ جب قازق صدر قاسم جومارت توقاییف پارلیمنٹ سے خطاب میں نئے وزیر اعظم کو نامزد کریں گے۔

صدر قاسم نے دارالحکومت نور سلطان اور اس کے گرد و نواح میں پرتشدد احتجاج کو بغاوت کی ناکام کوشش قرار دیا تھا۔قازقستان میں ایندھن کی قیمتیں بڑھنے کے سبب ہونے والے مظاہروں نے اس وقت پر تشدد رخ اختیار کر لیا جب شرکائ نے سرکاری عمارتوں کو نقصان پہنچایا۔توقاییف کے مطابق پرتشدد مظاہرین میں مشرق وسطیٰ اور افغانستان سمیت دیگر علاقائی ممالک کے باشندے بھی شامل تھے۔احتجاج کے دوران توقاییف نے کابینہ کو تحلیل کرتے ہوئے متعدد سیکیورٹی عہدیداروں کو بغاوت کے الزام میں عہدوں سے ہٹاتے ہوئے گرفتار کر لیا۔جمعہ کو ایک ٹیلیویژن خطاب میں قازقستان کے صدر قاسم جومارت توکایف نے کہا کہ مقامی اور غیر ملکی دہشت گرد ملک میں تباہی مچا رہے ہیں۔ میں نے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو بغیر کسی وارننگ کے گولی مارنے کا حکم دیا ہے۔انہوں نے روس کے صدر ولادیمیر پوٹن کا شکریہ بھی ادا کیا جب ماسکو کی قیادت میں فوجی اتحاد نے تشدد کو روکنے میں مدد کے لیے قزاقستان میں فوج بھیجی۔

بلنکن نے کہا کہ واشنگٹن کو اس بارے میں حقیقی تحفظات ہیں کہ توکایف نے اجتماعی سلامتی کے معاہدے کی تنظیم سے رابطہ کرنے پر مجبور کیوں محسوس کیا، جس پر پڑوسی روس کا غلبہ ہے۔طویل عرصے سے وسطی ایشیا کی سابق سوویت جمہوریہ قازقستان کو ان دنوں سب سے بڑے بحران کا سامنا ہے۔ ایندھن کی بڑھتی ہوئی قیمتوں پر کئی دنوں سے مظاہروں چل رہے ہیں۔ مظاہرین نے سرکاری عمارتوں پر دھاوا بول دیا اور پولیس اور فوج کے ساتھ لڑائی لڑی، خاص طور پر ملک کے سب سے بڑے شہر اور اقتصادی مرکز الماتی میں مظاہرے جاری ہیں۔بدامنی نے قازقستان کے عدم استحکام کے خدشات کو جنم دیا، جو توانائی کا ایک بڑا برآمد کنندہ اور یورینیم پیدا کرنے والا ملک ہے۔اسی دوران امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے قازقستان کے مظاہرین کے خلاف گولی مارنے کے حکم پر تنقید کی۔ قازقستان میں ان دنوں مظاہرین پر بدامنی پھیلانے کا الزام عائد کیا جارہا ہے۔ وسطی ایشیائی ملک قازقستان میں ’گولی مار کر قتل کردو‘ پالیسی کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

صدر جو بائیڈن کے اعلیٰ سفارت کار نے اے بی سی سنڈے کے ایک ٹاک شو میں بتایا کہ یہ وہ چیز ہے جسے میں بالکل مسترد کرتا ہوں۔ گولی مارنے کا حکم غلط ہے اور اسے منسوخ کر دینا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں قازقستان میں ہنگامی حالت کے بارے میں حقیقی خدشات ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ انہوں نے جمعرات کو وزیر خارجہ مختار تلیبردی سے بات کی۔ان کا کہنا ہے کہ ہم توقع کرتے ہیں کہ قازق حکومت مظاہرین کے ساتھ ایسے طریقوں سے نمٹے گی جو ان کے حقوق کا احترام کرتے ہیں، جس کے بعد کسی بطی طرح ’تشدد‘ سے پھیچے ہٹنے کی امید کی جاسکتی ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *