Pak Court Hands Power To Ousted PM Imran Khan's Ally In Punjab Provinceتصویر سوشل میڈیا

اسلام آباد: پاکستان کی عدالت عظمیٰ نے ملک کے سب سے بڑی آبادی والے صوبے پنجاب کی انتظامی باگ ڈور معزول ویر اعظم عمران خان کے حمایت یافتہ امیدوار پرویز الٰہی کو سونپ دی۔ چیف جسٹس عمر عطا بنڈیل، جسٹس اعجاز الحسن اور جسٹس منیب اختر پر مشتمل محض3ججی بنچ کے اس فیصلے سے پہلے ہی سے شدید اقتصادی بحران میں مبتلا پاکستان میں نئی سیاسی غیر یقینی کیفیت پیدا ہو گئی ۔ اپنے مختصر فیصلے میں عدالت عظمیٰ نے ڈپٹی اسپیکر کے فیصلے کو کالعدم قرار دیتے اور یہ کہتے ہوئے کہ عمران خان کے حمایت یافتہ پاکستان مسلم لیگ قائد (پی ایم ایل ق) کے چودھری پرویز الٰہی کو گذشتہ ہفتہ اسمبلی میں ہوئی ووٹ شماری میں غلط طریقے سے ہرایا گیا ہے حکم جاری کیا کہ پرویز الٰہی کو نصف شب سے پہلے صوبے کا وزیر اعلیٰ مقر کر دیا جائے۔ چونکہ عدالت عظمیٰ نے نصف شب سے پہلے پرویز الٰہی کو وزیر اعلیٰ مقرر کردینے کا حکم دیا تھا اس لیے گورنر پنجاب کے انکار کے باعث صدر مملکت عارف علوی نے پرویز الٰہی سے حلف لے کر ایک نئی روایت رقم کی۔قبل ازیں اردو خبر رساں ایجنسی اے یو ایس کے مطابق سپریم کورٹ میں وزیر اعلیٰ پنجاب کے انتخاب کے حوالے سے ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ پر سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ تمام فریقین معاونت کریں تو بہتر طریقے سے فیصلہ پر پہنچ سکتے ہیں، بائیکاٹ کرنے والے اپنے فیصلے پر نظرثانی کریں تو سب کیلئے بہتر ہوگا۔

گزشتہ روز فل کورٹ بینچ کے لیے اتحادی حکومت کی درخواست مسترد کرنے کے بعد سپریم کورٹ میں حال ہی میں ہونے والے وزیراعلیٰ پنجاب کے دوبارہ انتخاب سے متعلق درخواستوں کی سماعت دوبارہ شروع ہوئی۔چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال، جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر پر مشتمل 3 رکنی بینچ نے ڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی سردار دوست محمد مزاری کے فیصلے پر دلائل سنے جس کے نتیجے میں حمزہ شہباز کو وزیر اعلیٰ کے انتخاب میں فاتح قرار دیا گیا تھا۔پنجاب اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر دوست محمد مزاری کے وکیل عرفان قادر نے وزیر اعلیٰ پنجاب کے انتخاب کے حوالے سے سپریم کورٹ میں جاری مقدمے کی کارروائی میں مزید حصہ نہ لینے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ وہ عدالت کی جانب سے مکمل بینچ تشکیل نہ دینے کے فیصلے پر نظرثانی کی درخواست دائر کریں گے۔قبل ازیں پاکستان پیپلز پارٹی کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے بھی عدالتی کارروائی میں حصہ لینے سے انکار کردیا۔سماعت ساڑھے 11 بجے کے بعد شروع ہوئی، حکمران اتحاد نے کہا کہ وہ احتجاجاً کارروائی کا بائیکاٹ کرے گی جبکہ دونوں فریقین کے وکلا پہلے ہی عدالت پہنچ گئے تھے۔چیف جسٹس نے فاروق ایچ نائیک سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں فل کورٹ بنانے پر پر ایک بھی قانونی نقطہ نہیں بتایا گیا، آپ نے وقت مانگا تھا اس لیے سماعت ملتوی کی، عدالت میں موجود رہیں اور کاروائی دیکھیں۔ان کا کہنا تھا کہ ابھی تک قانونی سوال کا جواب نہیں دیا گیا، سوال یہ تھا کہ کیا پارٹی سربراہ پارلیمانی پارٹی کو ہدایات جاری کرسکتا ہے یا نہیں، قانون کے مطابق پارلیمانی پارٹی نے فیصلہ کرنا ہوتا ہے اور پارٹی سربراہ پالیسی سے انحراف پر ریفرنس بھیج سکتا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ اس سوال کے لیے فل کورٹ نہیں بنایا جاسکتا، ہم نے تمام فریقین کو قانونی نقطے پر دلائل کے لیے وقت دیا۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ 1998 میں نگران کابینہ کو سپریم کورٹ نے معطل کردیا تھا، چیف ایگزیکٹو ہی کابینہ کا سربراہ ہوتا ہے، ہم پنجاب میں وزیر اعلیٰ کا معاملہ جلد از جلد نمٹانا چاہتے ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ فل کورٹ کے نکتے پر قائل نہ ہوسکے، دلائل میں فل کورٹ کا کہا گیا، فل کورٹ کی تشکیل ستمبر کے دوسرے ہفتے تک ممکن نہیں، ہم اس معاملے کو یوں طول نہیں دے سکتے، یہ محض تاخیری حربے ہیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ ستمبر کے دوسرے ہفتے سے قبل فل کورٹ نہیں بن سکتا، اب اس کیس کے میرٹس پر دلائل سنیں گے، اس کیس کا فیصلہ نہ ہونے کے باعث ایک صوبے میں بحران ہے، اس کیس میں مزید تاخیری حربے برداشت نہیں کریں گے۔ان کا کہنا تھا کہ 21ویں ترمیم کا حوالہ پیش کیا گیا، جسٹس عظمت سعید نے 18ویں ترمیم میں آبزرویشن دی کہ ووٹ پارٹی سربراہ کی ہدایات پر دیا جاتا ہے، 18ویں ترمیم اس کیس سے مختلف ہے، ہمیں اس معاملے پر معاونت درکار ہے۔جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ اگر کسی نے کچھ غلط سمجھا تو اسے درست کیا جا سکتا ہے، غلط طور پر آئین کو سمجھنے کا مقصد ہے کہ آئین کو درست انداز میں نہیں سمجھا گیا۔انہوں نے کہا کہ دلائل کے دوران 21ویں ترمیم کیس کا حوالہ دیا گیا، 21ویں ترمیم والے فیصلے میں آبزرویشن ہے کہ پارٹی سربراہ ووٹ دینے کی ہدایت کر سکتا ہے، آرٹیکل 63 اے کی تشریح میں کون ہدایت دے گا یہ سوال نہیں تھا، تشریح کے وقت سوال صرف منحرف ہونے کے نتائج کا تھا۔انہوں نے سوال کیا کہ کیا 17 میں سے 8 ججز کی رائے کی سپریم کورٹ پابند ہو سکتی ہے؟ فل کورٹ بینچ کی اکثریت نے پارٹی سربراہ کے ہدایت دینے سے اتفاق نہیں کیا تھا، عدالت کے سامنے 8 جج کے فیصلہ کا حوالہ دیا گیا، آرٹیکل 63 اے سے متعلق 8 ججز کا فیصلہ اکثریتی نہیں ہے، آرٹیکل 63 سے پر فیصلہ 9 رکنی ہوتا تو اکثریتی کہلاتا۔چیف جسٹس نے کہا کہ عدالتی بائیکاٹ کرنے والوں نے اتنی گریس دکھائی ہے کہ بیٹھ کر کارروائی سن رہے ہیں، میں اپنے کام کو عبادت سمجھ کر کرتا ہوں، عدالت کا بائیکاٹ کرنے والے تھوڑا دل بڑا کریں اور کارروائی سنیں۔

چیف جسٹس نے بیرسٹر علی ظفر کو ہدایت کی کہ قانونی سوالات پر عدالت کی معاونت کریں اور دوسرا راستہ ہے کہ ہم بینچ سے الگ ہو جائیں۔اس موقع پر بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ عدالت نے گزشتہ روز تفصیلی دلائل سنے، یہاں معاملہ آرٹیکل 63 اے کی تشریح کا نہیں ہے، سپریم کورٹ پہلے ہی اس معاملے کی تشریح کر چکی ہے۔انہوں نے کہا کہ یہاں معاملہ صرف پارٹی سربراہ کی ڈائریکشن کا ہے، 18ویں ترمیم میں پارٹی ہیڈ کو منحرف ارکان کے خلاف کاروائی کا اختیار دیا گیا ہے۔جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ جج کا بار بار اپنی رائے تبدیل کرنا اچھی مثال نہیں ہوتی، جج کی رائے میں یکسانیت ہونی چاہیے۔اس مرحلے پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمٰن نے روسٹرم پر آ کر کہا کہ عدالت کی خدمت میں چند گزارشات پیش کرنا چاہتا ہوں۔جسٹس منیب اختر نے سوال کیا کہ کیا وفاقی حکومت حکمران اتحاد کے فیصلے سے الگ ہوگئی ہے؟ جس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ آرٹیکل 27۔اے کے تحت عدالت کی معاونت کروں گا۔چیف جسٹس نے کہا کہ فیصلے میں کوئی غلطی نہ ہوجائے اس لیے سب کو معاونت کی کھلی دعوت ہے۔پی ٹی آئی کے وکیل امتیاز صدیقی ایڈووکیٹ نے دلائل کا ا?غاز کرتے ہوئے کہا کہ پارٹی سربراہ کی ہدایات بر وقت آنے چاہیے، ڈپٹی اسپیکر نے کہا کے مجھے چوہدری شجاعت کا خط موصول ہوا۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ چوہدری شجاعت کے وکیل نے کہا کہ تمام پارٹی ممبران کو خط بھیجا گیا تھا، انہیں پارٹی سربراہ کی واضح ہدایات تھیں۔

امتیاز صدیقی نے جواب دیا کہ پنجاب اسمبلی کی کارروائی آپ کے سامنے ہے، عدالت کو علم ہے کہ ووٹنگ کیسے ہوئی، وفاقی حکومت تمام ذرائع برو? کار لائی، پارٹیوں کے سربراہ کیسے لاہور میں جمع ہوئے یہ سب کے سامنے ہے۔جسٹس اعجاز الااحسن نے استفسار کیا کہ کیا ووٹنگ سے پہلے خط پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں پڑھا گیا؟ انہوں نے فاروق ایچ نائیک سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ نائیک صاحب اگر کچھ بہتری آ سکتی ہے تو عدالت سننے کیلئے تیار ہے، اس پر فاروق اہچ نائیک نے جواب دیا کہ مسئلہ یہ ہے کہ ان مقدمات میں ہم پارٹی پالیسی کے پابند ہوتے ہیں۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ مخالف فریقین کیس سن رہے ہیں لیکن دلائل نہیں دے رہے، اس وقت ان کی حیثیت ایسے ہی ہے جیسے اقوام متحدہ میں مبصر ممالک کی ہوتی ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ تمام فریقین معاونت کریں تو بہتر طریقے سے فیصلہ پر پہنچ سکتے ہیں، بائیکاٹ کرنے والے اپنے فیصلے پر نظرثانی کریں تو سب کیلئے بہتر ہوگا۔بعد ازاں عدالت نے کیس کی سماعت میں ڈھائی بجے تک وقفہ کردیا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *