تلک دیواشر
رکن قومی سلامتی مشاورتی بورڈ
ہندوستان میں بہت کم لوگوں نے میر شکیل الرحمٰن کے بارے میں سنا ہوگا جبکہ جنگ / جیو گروپ کے بارے میں ، جس کے تحتپاکستان میں کئی اخبارات اور نیوز چینل چل رہے ہیں،بہت لوگ جانتے ہوں گے ۔ میر شکیل الرحمٰن المعروف ایم ایس آر اس گروپ کے چیف ایڈیٹر ہیں اور 12 مارچ سے عدالتی تحویل میں ہیں اور 12مئی کو لاہور کی احتساب عدالت نے ان کے جوڈیشیل ریمانڈ میں یکم جون تک توسیع کر دی ۔ایم ایس آر کو 1986 میںایک قطعہ اراضی کی خریداری کے معاملہ میں گرفتار کیا گیا تھا۔ اس کیس کی نوعیت کیسی ہی ہو بیشتر وکلااس بات پر متفق ہیں کہ گرفتاری ہراساں کرنے کی ایک زبردست کوشش تھی۔ تحقیقات ابتدائی مراحل میں تھیں ، ایم ایس آر قومی احتساب بیورو (نیب) کے ساتھ پوری طرح تعاون کر رہے تھے اور تمام دستاویزات ضبط کرلی گئی تھیں۔ اس کے باوجود ، انہیں عمران خان کی انا کو مطمئن کرنے کے لئے گرفتار کیا گیا کیونکہ ایم ایس آر نے اپنےٹی وی اینکرز اور اخبارات کے رپورٹروں اور نمائندوں کو حکومت کی کارکردگی پر تنقید کرنے والے مواد کی اشاعت یا اس کو ٹیلی کاسٹ و براڈ کاسٹ کرنے سے روکنے سے انکار کردیا تھا۔
سیاستدانوں کے حوالے سے میڈیا رپورٹوں کے مطابق عمران خان کی اس دھمکی کا ریکارڈ موجود ہے جو انہوں نے جنگ / جیو والوں کا دماغ ٹھکانے لگا دینے کی دی تھی۔پاکستان میں ، مخالفین کو ستانے کے لئے ریاستی آلہ کاروں کا استعمال کیا جانا ایک معمول رہا ہے۔ اس کے باوجود عمران خان نے جس طرح کی انتقامی کارروائی اور چھوٹے پن کا مظاہرہ کیا وہ بے مثال ہے۔ ایم ایس آر کی گرفتاری عمران خان کے وزیر اعظم بننے کے بعد سے میڈیا کو ہراساں کرنے کا تازہ ترین واقعہ ہے۔گذشتہ کئی مہینوں سے حکومت کو ہدف تنقید بنانے پر میڈیا گروپس کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔اس طرح اخباری ایجنٹوں، ڈسٹری بیوٹرز اور ہاکرز کو دھمکیا ں ملنے کے باعث اخباروں کی گھروں تک رسائی میں خلل پڑا۔ کچھ میڈیا گروپس سے سرکاری اشتہارات کم و بیش بالکل ہی غائب ہو گئے۔کیبل آپریٹرز کو کہا گیا تھا کہ وہ یا تو چینلز کو بلاک کریں یا اس کی سمت سے ناظرین کو کنفیوز کرنے کے لیے کیبل نیٹ ورک کے آخری نمبروں تک چینلز کے مقام بدل دیں ۔ اس کا مقصد ناظرین کی تعداد / قارئین کی تعداد کو کم کرنا تھا جبکہ نشانہ بنائے گئے گروپوں کے راہ راست پر آجانے کو یقینی بنانے کے لیے انہیں اشتہارات کے فاقوں میں مبتلا کر دیا جائے ۔2019 میں ، سابق صدر آصف زرداری کا معروف صحافی حامد میر کا براہ راست جیو نیوز انٹرویو بغیر کسی وضاحت کے محض چند منٹ کے بعدمختصر کر دیا گیا۔ ہم نیوز پر نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز کے ساتھ ایک براہ راست انٹرویو ، ٹرانسمیشن کے چند منٹ بعد ہی ’جبراً روک دیا گیا‘۔
تین دیگر پاکستانی ٹی وی نیوز چینلز اب تک ٹی وی ، 24 نیوز اور کیپیٹل ٹی وی کے سگنلز 8 جولائی 2019 کو اچانک کیبل ٹی وی سروس سے ہٹا دیئے گئے ، اور مریم نواز کی کوریج کی وجہ سے کئی دن تک معطل رہے۔طلعت حسین ، نجم سیٹھی ، نصرت جاوید اور مرتضیٰ سولنگی جیسے صحافیوں کو ملازمت چھوڑنے پر مجبور کردیا گیا ۔ طحہٰ صدیقی اور گل بخاری جیسے کچھ افراد خوش قسمترہے کہ انہیں بیرون ملک پناہ مل گئی۔ ساجد حسین جیسے کچھ افراد جو بلوچستان سے متعلق خبریں دینے کے باعث سویڈن میں سیاسی پناہ لیے ہوئے تھے ، ہلاک کر دیے گئے ۔ایم ایس آر کی گرفتاری کے خلاف ، جنگ / جیو گروپ کے کارکنوں نے ملک گیر پیمانے پر مظاہرے شروع کیے اور مختلف شہروں میں خیمہ زن ہو کر بھوک ہڑتال کی۔ ایم ایس آر کی رہائی کے مطالبہ پر زور ڈالنے کے لئے متعدد میڈیا گروپس اور حزب اختلاف کے معروفسیاستدان ان مظاہروں اور بھوک ہڑتال میں شامل ہوئے ۔ قانون داں برادری اور کاروباری گروپوں نے بھی اس گرفتاری کو غیر قانونی قرار دیا ہے۔
بین الاقوامی سطح پر بھی ایسے ہی حالات دیکھے گئے۔ امریکی وزارت خارجہ نے گرفتاری پر تشویش کا اظہار کیا ۔ برطانیہ میں ارکان پارلیمنٹ نے اس واقعے کی مذمت کی ہے۔ دولت مشترکہ جرنلسٹس ایسوسی ایشن نے پاکستان سے ایم ایس آر کی رہائی کا مطالبہ کیا ہے۔ ایک اور تنظیم نے مطلق العنانہ گرفتاری سے متعلق اقوام متحدہ کے ورکنگ گروپ اور تحفظ و فروغ حق آزادی اظہار رائے کے حوالے سے روداد تیار کرنے والی کمیٹی کے سربراہ سے شکایات کی ہیں۔ بین الاقوامی پریس انسٹی ٹیوٹ نے عمران خان کو ایک مکتوب کے توسط سے ایم ایس آر کی مسلسل نظربندی پر اپنی شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ گرفتاری یہ پیغام دینے کے لئے کی گئی ہے کہ حکومت پر کسی بھی قسم کی تنقید سے پاکستان میں ایک آزاد پریس کی بقا کے لیے سنگین نتائج برآمد ہوں گے ۔
ان سب کے باوجود میڈیا پر قدغن لگانے کے حوالے سے جب معلوم کیا گیا تو عمران خان نے سفید جھوٹ بولنا جاری رکھا ۔ وہ طوطے کی طرح یہی رٹتے رہے کہ پاکستانی میڈیا کو برطانوی میڈیا سے زیادہ آزادی حاصل ہے اور اس ضمن میں انہوں نے برطانیہ میں اپنے 18 سال تک مقیم رہنے کے اپنے تجربے کا حوالہ دیا ہے۔رپورٹرز سینزفرنٹیئررس (آر ایس ایف) نے جب عمران خان کی طرف سے ان کے آزادی کے دعوے کو بیہودہ قرار دیتے ہوئے اس کی براہ راست تردید کی۔ 31 جولائی 2019 کو ایک کھلے خط میں اس نے عمران خان سے مطالبہ کیا کہ وہ اپنے ملک میں پریس کی آزادی میں خطرناک حد تک کمی کا اعتراف کریں اور اس سے نمٹنے کے لئے فوری اقدامات کریں۔ورلڈ پریس فریڈم انڈیکس 2020 کے مطابق آر ایس ایف نے نشاندہی کی ہے کہ پاکستانی میڈیا 2018میں عمران خان کے بر سر اقتدار آنے کے بعد سے فوج کے زبردست اثر و رسوخ اور حکومت پر گرفت کے باعث پاکستانی میڈیا ترجیحی ہدف بن گیا ہے ۔ ایک حالیہ رپورٹ میں یوروپی کمیشن نے خصوصی تذکرہ کیا کہ پاکستان میں ’میڈیا کی آزادی ‘ بری طرح سلب کی جا رہی ہے۔یہ ایسا رجحان ہے جو 2018 میں عام انتخابات سے پہلے تک تھا جس میں قومی سلامتی کو ‘آزادی اظہار رائے کو کچلنے کے بہانے کے طور پر استعمال کیا گیا تھا۔
اس بات کا احساس کرتے ہوئے کہ میڈیا نے عمران خان کو ایک نا خوشگوار صورت حال سے دوچار کر دیا ہے ، فوج نے اپنے میں سے ہی ایک لیفٹیننٹ جنرل عاصم سلیم باجوہ (ریٹائرڈ) کو ،جو ایس پی آر کے سابق ڈی جی آئی ہیں ، وزیر اعظم کا مشیر برائے اطلاعات کے طور پر مقرر کر دیا۔اس نقطہ نظر سے وہ کابینہ کے اجلاسوں میں شرکت کریں گے اور حکومت کے کام کاج پر نگاہ رکھیں گے۔ یہ دیکھنا دلچسپ ہوگا کہ وہ اس صورتحال کو کیسے سنبھالیں گے ۔ ایک بات کے لئے ، یہ بہت امکان ہے کہ حکومت کے تئیں میڈیا کے غصے اور عداوت کو فوری طور پر ختم کرنے کے لئے ایم ایس آر کو جلد یا بدیر ضمانت پر رہا کر دیا جائے گا۔ اور باجوہ عمران خان کی ساکھ کو، جو ان کے وزیر اعظم بننے کے بعد اور خاص طور پر کوویڈ 19 وبا سے نمٹنے میں نااہلی کے باعث کافی مجروح ہوگئی ہے ،بحال کرنے کے لیے میڈیا پر اپنے اثرو رسوخ کا استعمال کریں گے۔جو حکومت چلانے میں عمران خان کی نا اہلی کے مدنظر بلا شبہ ایک مشکل امر ہو گا۔
(یہ مضمون نگار کے ذاتی خیالات ہیں، ادارہ کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں)