Pak-hand in narco-terror network needs determined counter, even amid pandemic (Opinion)علامتی تصویر سوشل میڈیا

اس وقت دنیا اپنے اوپر طاری کورونا وائرس وبا سے ان شکوک و شبہات اور افواہ کے ساتھ کہ یہ حیاتیاتی ہتھیار ہے، نبرد آزماہے ۔ اس وائرس کے خلاف اس لڑائی نے ، جس نے لاکھوں انسانوں کو لقمہ اجل بنا دیا دنیا کی توجہ کالے دھن اور منشیات کی عالمی سطح پر اسمگلنگ سے خاص طور پر ایشیا میں بھڑکائی جا نے والی دہشت گردی کے خلاف لڑی جانے والی ایک دیگر بڑی جنگ کو کمزور کر دیا ہے۔ وسطی جنوب اور مغربی ایشیا کے تراہے پر ”گولڈن کریسنٹ“ کے عنوان سے واقع ایشیا کے دو اصل علاقے مسلم ممالک افغانستان، ایران اور پاکستان پر مشتمل ہے۔یہ ممالک دنیا کی افیم پیدا کرنے والی نہایت اہم مجلس ثلاثہ اور ہیروئن ان ملکوں خاص طور پر افغانستان کے لیے، جہاں خوفناک اسلامی دہشت گرد تنظیم طالبان کی پیدائش، بقا اور عروج منشیات کے دھندے کے ہی سہارے ہے، غیر قانونی آمدنی کا اصل ذریعہ ہے۔دفتر اقوام متحدہ برائے منشیات و جرائم(یو این او ڈی سی)کی2019کی سالانہ رپورٹ کے مطابق یہ دیکھا گیا ہے کہ افغانستان میں افیم کی پیداوار میں37فیصد اضافہ ہوا ہے جبکہ افیم کی کاشت کرنے والے گولڈن ٹرائینگل کے اصل ملک میانمار میں 25فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔

افغانستان میں افیم کی کاشت والے زیادہ تر علاقے طالبان کے، جس کے پاکستانی فوج خاص طور پر پاکستان کی سراغرساں ایجنسی انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی)سے نزدیکی تعلقات روز روشن کی طرح عیاں ہیں، زیر تسلط ہیں۔افغانستان میں افیم کی مزید افزودگی کر کے تیار کی جانے وا لی ہیروئن روایتی طور پر تین راستوں بلقان ریاستیں، یا وسطی ایشیائی ممالک یا برصغیر ہند سے دنیا بھر میں پہنچائی جاتی ہیں۔یہ بات نوٹ کی گئی ہے کہ 2015میں بلقان اور وسطی ایشیائی ممالک کے نام سے دونوں راستوں سے ہیروئن کم پکڑی جاتی ہے ۔جو اس امر کی نشاندہی کرتی ہے اس دھندے پر قابو پانے کے لیے ایران اور وسطی ایشیا میں حکومتی کارروائی بڑھ گئی ہے۔اب افغانستان میں ہیروئن کی اس زبردست پیداوار کے ساتھ اس کی عالمی سطح پر تقسیم کے لیے واحد راستہ پاکستان سے گذرتا ہے۔ منشیات کو، جو افغانستان کے نا ہموار علاقوں میں،2018کی تخمینہ کے مطابق 10ہزار ٹن سے زائد، پیدا ہوتی ہے،آئی ایس آئی کے ساتھ کام کر رہے پاکستان مقیم منشیات اسمگلروں اور دیگر نیٹ ورک کے توسط سے باہر نکلنے کا ایک آسان راستہ مل جاتا ہے۔افغانستان کے عین قلب میں پیدا ہونے والی یہ منشیات دوقر دور تک تقسیم کیے جانے کے لیے ہزاروں میل کا سفر طے کر کے پاکستان کے ساحل پر پہنچتی ہیں۔ افغانستان اور پاکستان کے درمیان سرحد نہایت حساس علاقوں میں سے ایک ہے اور پاکستان نے ان سرحدوں کی نگہبانی کے لیے کثیر تعداد میں فوج تعینات کر رکھی ہے۔

اسمگلنگ کے لیے ممکنہ متبادل بننے کے لیے ٹنوں منشیات کو ان سرحدوں کے راستے ٹرکوں اور کاروں کے ذریعہ بھیجا جاتا ہے اور اس کے بعد پاکستان کے اندر پہنچ کر اسے 100اور200کلو گرام کے تھیلوں میں ڈال کر آگے تقسیم کر دیا جاتا ہے۔ اس قسم کی تقسیم میں لاہور اور فیصل آباد میں کئی گروہ سرگرم ہیں اور اس کے بعد یہ کھیپ ماہی گیر کشتیوں کے توسط سے مزید آگے بھیجنے کے لیے کراچی یا گوادار بندرگاہ بھیج دی جاتی ہیں۔2019میں جو منشیات پکڑی گئیں ان میں سے زیادہ تر دلیہ اور گندم کے آٹے کے معروف برانڈز کے تھیلوں کی شکل میں بھیجی جا رہی تھیں۔

:ضبطیوں سے ان رجحانات کا پتہ چلتا ہے
دولت اسلامیہ فی العراق والشام (آئی ایس آئی ایس) سے وابستہ پاکستانی شہریوں کا بطور سرغنہ ملوث ہونا۔ یہی پاکستانی ہیں جو منشیات کی حصولی کے بعد اسے مالدیپ، سری لنکا، سیشلز ، ہندوستان، موزمبیق، تنزانیہ اور کینیا جیسے ممالک میں بھیجتے ہیں جہاں سے وہ مغرب بھیج دی جاتی ہیں۔
اس نیٹ ورک کو پاکستان میں سرگرم سرغنوں کی مدد کے لیے سری لنکا، مالدیپ، دوبئی اور مشرقی افریقہ مقیم پاکستانی شہری دستیاب ہیں۔
منشیات کی نقل و حمل میں نائجیریا ئی شہریوں کو بھی ملوث پایا گیا جس سے ہیروئن کے باہر جانے اور کوکین کے خطہ میں داخل ہونے کا شبہ ہوتا ہے۔

منشیات کے عالمی دھندے اور دہشت گردانہ سرگرمیوں کے لیے مالی اعانت میں پاکستان کے پیش پیش ہونے کی عالمی تحقیقاتی ایجنسیاں وقتاً فوقتاً تصدیق کرتی رہی ہیں۔18مئی کو میانمار میں پکڑے جانے وا لے دنیا کا اب تک کے سب سے بڑ ے منشیات دھندے سے جنوب مشرق ایشیائی اسمگلروں اور کراچی مقیم انڈر ورلڈ ڈان داو¿د ابراہیم کے درمیان ،جو بنگلہ دیش اور تھائی لینڈ سمیت خطہ میں بڑے پیمانے پر منشیات کے کاروبار کو کنٹرول کرتا ہے، رابطوں کا پردہ چاک ہو گیا۔گذشتہ سال پنجاب میں واگہہ اٹاری سرحد پر 532کلو گرام ہیروئن کی ضبطی کی تحقیقات سے یہ بات سامنے و¿¾ٰ کہ اسی پاکستانی نیٹ ورک نے منشیات کی یہ کھیپ پہنچائی تھی اور اس کے عوض ملنے والی رقم جموں و کشمیر میں سرگرم دہشت گرد تنظیموں کو دی گئی تھی۔گذشتہ سال 29جون کو محکمہ کسٹم نے جو ضبطیاں کی تھیں ان کی قانون نافذ کرنے والے اداروں کی تحقیقات سے عقدہ کھلا کہ یہ منشیات تھیں جو سینڈا نمک کی چھ پیٹیوں میں چھپاکر لے جائی جا رہی تھیں۔
کنشک انٹرپرائزز (امرتسر)کا مالک گورپیندر سنگھ منشیات کے ساتھ پکڑا گیا اور اس کے بعد جموں و کشمیر میں ہندواڑہ کا رہائشی طارق احمد لون پکڑا گیا۔ قومی تحقیقاتی ایجنسی ،جس سے گذشتہ جولائی میں تحقیقات کرائی گئی تھی ،اب تک لون کے پاکستان مقیم چاچا فاروق لون ،پاکستانی شہریوں سحل اور صہیب نور کو گرفتار کر چکی ہے۔ ہیروئن کے ساتھ میتھم فیٹامائن کی حالیہ ضبطی سے ایک اور پریشان کن رجحان سامنے آیا ہے۔نومبر اور دسمبر2019میں موزمبیق میں ہوئے معاملات میں، جس میں قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں نے ہیروئن کے ساتھ میتھم فیٹا مائن بھی پکڑی ، پاکستانی ملوث پائے گئے۔سری لنکا ک کی بحریہ نے جو حال ہی میں ضبطی کی ہے اس میں 400کلو گرام ہیروئن اور 100کلو گرام میتھم فیٹا میائن (آئی سی ای) بھی تھی۔ اس سے نشاندہی ہوتی ہے کہ ییہ کارروائی اسی پاکستانی گروہ کی ہے۔

آئی سی ای گولڈن کریسنٹ میں حالیہ اضافہ ہے۔خطہ میں آسانی سے دستیاب ہوجانے والی دوا ایفدرین رکھنے کے لیے ایتھوپیا کے نام سے قدرتی اگ جانے والی چھوٹی جھاڑی میسر آگئی۔یہ دوا آئی سی سی کی پیش رو ہے اور پہلے مصنوعی طور پر تیار کی جاتی تھی۔یہ معلوم ہوا ہے کہ پاکستان میں غیر قانونی لیبارٹریز ہیں جو پلانٹ سے ایفدرین نچوڑنے کی صلاحیت کی حامل ہیں۔ بھاری مقدار میں حالیہ ضبطیاں اس امر کی نشندہی کرتی ہیں کہ خطہ میں تجارت آہستہ آہستہ آئی سی ای کی جانب بڑھ رہی ہے۔

پاکستان میں افیم کو ہیرئن میں تبدیل کرنے کے لیے پاکستان میں غیر قانونی لیبارٹریوں کی برساتی مینڈکوں کی طرح بھرمار ہے۔ ہیروئن تیار کرنے کے لیے بنیادی شے ایک بے رنگ رقیق مادہ ایسٹک اینہائڈرائیڈ ہے۔ اس کی تجارت پر بندش عائد ہے اور اس پر سخت کنٹرول رکھا جاتا ہے۔جہاں تک افغانستان کا تعلق ہے اسے فضائی راستے سے درآمد کیا جاتا ہے۔ لیکن سخت قانون نافذ ہونے کے باعث یہ پایا گیا کہ پاکستان میں افزودگی لیبارٹریز ،جنہیں کچھ گروہ چلاتے ہیں، پاکستان کے اندر ہی، جہاں بھاری صنعتیں ہیں جو ایسٹک اینہائیڈرائیڈ کو ایک خام مال کے طور پر استعمال کر سکتی ہیں، ایسیٹک اینہائیڈرائیڈ فراہم کر کر رہی ہیں ۔
بلا شبہ ایک بڑا ثبوت اس امر کی نشاندہی کرتا ہے کہ بین الاقوامی منشیارت دھندے اور عالمی دہشت گردی دونوں میں پاکستان ہی اصل مرکز ہے اور نہ صرف ہندوستان کے مغربی ہمسایہ کانام لینا بلکہ اس کے کرتوتوں و شیطانیت پر پاکستان کے خلاف سخت تعزیزی کارروائی کرنے کے لیے کثیر جہتی اداروں کو استعمال کرنے کے لیے حکومت ہند کی قیادت میں بین الاقوامی مساعی کی ضرورت ہے۔

(این سی بنپندرا دفاع تجزیہ کار ،دہلی میں قائم تھنک ٹینک لاءاینڈ سوسائٹی الائنس کے چیرمین اور ڈیفنس کیپٹل کے ایڈیٹر ہیں ،مضمون میں جن خیالات کا اظہار کیا گیا ہے وہ مضمون نگا ر کے ذاتی خیالات ہیں ادارہ اردو تہذیب کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں)
ncbipindra@gmail.com ای میل

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *