Pak moves don’t bode well for Balochistanتصویر سوشل میڈیا

تلک دیواشر
(رکن قومی سلامتی مشاورتی بورڈ)

متعدد حالیہ واقعات اس ناپاک اور منحوس منصوبے کی جانب نشاندہی کرتے ہیںجو فوج کے رحم و کرم پر چل رہی عمران خان حکومت نے چینی مفادات کے تحفظ کے لیے بلوچستان کو مزید تابع دار بنانے کے لیے وضع کیا ہے۔ 2015میں انگریزی روزنامہ ڈان نے گوادار کو بلوچ قوم پرستوں کے حملوں سے محفوظ رکھنے کے ہلیے تاروں کی باڑ لگانے کے حوالے سے کافی کچھ بیان کیا تھا۔ جس کے تحت مقامی رہائشیوں کو اقامہ دیا جائے گا جبکہ ریاست کے باہر سے آنے والوں کو ہر ناکہ پر اپنے نام پتہ و حلیہ کا اندراج کرانا ہوگا۔ اپریل 2016کے وال اسٹریٹ جرنل میں ایک آرٹیکل شائع ہوا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ چینیوں نے تحفظ کے مقصد سے پورے شہر کا 65میل طویل باڑ لگادی ہے جس کے بعد مقامی باشندوں سمیت گوادار آنے والے ہر شخص کو خصوصی اجازت نامہ حاصل کرنا پڑے گا۔ پہلے جس باڑ کی باتیں ہوتی تھیں اب وہ لگا دی گئی ہے۔

اس ضمن میں اگرچہ ابھی تفصیل نہیں مل سکی ہے لیکن خیال کیا جاتا ہے کہ نگرانی کرنے والے کیمروںکے ساتھ تاروں کی باڑ شہر کے ایک بڑے حصے کے ارد گرد لگا دی جائے گی۔ لوگوں کی نقل آمد و رفت کو منظم کرنے کے لیے دو یا تین داخلی و خارجی ناکے بنائے جائیں گے جہاں مقای رہائشیوں کو اقامہ دیا جائے گا ،اسے دکھائے بغیر شہر میں داخل نہیں ہونے دیا جائے گا۔ اس طریقہ کار سے نسل پرستی کے دور کے پاسوں کے نظام جیسا ہوگا جس کے تحت جنوبی افریقہ کی مقامی آبادی کو ان کی نقل و حرکت کو منظم کرکے انہیں قابو میں رکھا جاتا تھا۔گوادار بندرگاہ کی تفصیلات کسی طور پر عام نہیں کی جا سکتیں۔ نومبر2020میں ایک سینیٹ پینل کو مطلع کیا گیا تھا کہ گوادار بندرگاہ کے ٹھیکے سے متعلق امور ”صیغہ راز“ میں رکھنے والے ہیں اور اس کی تفصیلات عام نہیں کی جا سکتیں۔مقامی بلوچوں کا خیال ہے کہ شفافیت کے فقدان اور تاروں کی باڑ لگانا انہیں شہر سے بے دخل کرنے اس کی آبادیات تبدیل کرنے اور بالآخر گوادار کو بلوچستان سے علیحدہ کرنے کے لیے رچی گئی سازش کا ایک جزو ہے ۔

مکران ساحل کو ”جنوبی بلوچستان“ کے طور پر نیا نام دے کر ر وفاقی حکومت کی لغت میں اسی نام سے اسے شامل کردیا گیا۔11ستمبر 2020کو اپنے دورہ بلوچستان کے دوران وزیر اعظم عمران خان جنوبی اضلاع کی ترقی کی خواہش کا اظہار کیا۔نومبر 2020میں وفاقی کابینہ نے جنوبی بلوچستان کے خاص طور پر 9اضلاع کی آئندہ تین سال کے دوران ترقی کے لیے 600بلین روپے کے پیکیج کا اعلان کیا۔ اس سے قبل نہ تو کوئی جغرافیائی زمرہ بندی تھی اوعر انتظامیہ کے مقصد سے ڈویژن اور اضلاع جیسے الفاظ بھی مستعمل نہیں تھے۔ کوئٹہ میں فوج کی سدرن کمانڈ ہے جس کی کمان پہلے لیفٹننٹ جنرل عاصم (پاپاجان) باجوا کرتے تھے جو آج سی پیک اتھارٹی کے چیرمین ہیں۔ نیم فوجی فرنٹیر کور بلوچستان کو2017میں شمالی اور جنوبی خطوں میں تقسیم کر دیا گیا۔ اسی طرح 2009اور2017کے ترقیاتی پیکیجز کی عمل آوری کی بھی ایسی ہی مایوس کن تاریخ ہے۔پیکیج کے حشر سے زیادہ بلوچیوں کو اسبات کی فکر اور تشویش ہے کہ کہیںکوئی ایسی سازش تو نہیں رچی جارہی جو گوادار بندرگاہ کو ترقی اور سلامتی کے نام پر باقی بلوچستان سے ہی علیحدہ کر دے۔

جیسا کہ ایک سابق وزیر اعلیٰ نے کہا ہے کہ ”یہ جنوبی، شمالی مشرقی یا مغربی بلوچستان نہیں صرف ایک بلوچستان ہے۔ اسی طرح یہ خیال کیا جاتا ہے کہ وفاقی حکومت کا جنوبی بلوچستان پر تو مکمل تسلط رہے گا اور مجموعی طور پر صوبہ اپنے بیش قیمت ساحل اور گوادار بندرگاہ سے محروم ہو جائے گا۔پاکستان کے اندرونی اور علاقائی پانیوں میں جزائر کا انتظام و انصرام اور ترقی کے لیے پاکستان آئس لینڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی کی تشکیل کے لیے حال ہی میں جاری کیے گئے آرڈی ننس سے معاملات اور بھی خراب ہو گئے ہیں۔ سندھ اور بلوچستان کے لوگوں کا کہنا ہے کہ اسلام آباد ان کے ساحل میں گھس کر ان کے جزائر کا کنٹرول اپنے ہاتھ میں لینا چاہتا ہے۔کراچی کے دو آئس لینڈ پر کنٹرول کرنے کی کوشش پر سندھ آگ بگولہ ہے اور مزاحمت کے لیے تیار ہے۔اور اب بلوچوں کو جنوبی بلوچستان پر وفاقی حکومت کے ممکنہ کنٹرول سے تشویش ہو گئی ہے۔

ایک اہم سوال رقم کی فراہمی کا ہے ۔ وفاقی حکومت نہ صرف اقتصادی طور پر ٹوٹ چکی ہے بلکہ قرض کے بوجھ تلے د ب کر ہر کس ناکس سے قرضے مانگ رہی ہے۔یہ حالات ایک بات کی تصدیق کرتے ہیں ۔حکومرت اور فوج جو کہہ رہی ہے اس کے باوجود بلوچ بغاوت پاکستان اور چینی سرمایہ کاری کے لیے ایک زبردست سیکورٹی چیلنج ہے۔ اس چینلج کا سامنا کرنے کے لیے ہی گوادار کے اطراف تاروںکی باڑ لاگئی جارہی ہے، سی پیک کے لیے راستہ نکالا جارہا ہے اور بلوچستان کو تقسیم کرنے کے لیے ابتدائی اقدامات کیے جارہے ہیں اور جنوبی حصہ کا کنٹرول سنبھالا جارہا ہے۔ان اضلاع کو ہی پسماندہ قرار دینے کو حق بجانب نہیں بتایا جا سکتا کیونکہ بلوچستان کے سارے ہی اضلاع پسماندہ ہیں۔ اس لیے اس پیکیج کے پس پشت کوئی اور ہی سبب پوشیدہ ہے جو کسی حکمت عملی کے تحت دیا گیا ہے۔اس کا مقصد مکران خطہ کا دلاسہ دینے کی کوشش بھی کہا جا سکتا ہے۔(جاری)

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *