اسلام آباد:(اے یو ایس)پاکستان کے قومی سلامتی کے مشیر معید یوسف کا کہنا ہے کہ پاکستان کے پاس افغانستان میں طالبان کی حکومت کے ساتھ روابط رکھنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔ اور اگر دنیا نے افغانستان کو تنہا چھوڑا تو دوبارہ دہشت گردی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔اسلام آباد میں بدھ کو غیر ملکی صحافیوں سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ طالبان کے ساتھ روابط قائم کرنا دنیا کے مفاد میں ہے۔ان کے بقول، امریکہ نے کہا تھا کہ افغانستان میں 1990 والی غلطی نہیں دھرائی جائے گی مگر دنیا وہی غلطی دوہرا رہی ہے۔معید یوسف کا کہنا تھا کہ اگر دنیا نے ماضی کی طرح افغانستان کو چھوڑا تو داعش، القاعدہ اور تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) جیسی تنظیموں کے پنپنے کا خطرہ رہے گا۔انہوں نے کہا کہ دنیا کی جانب سے پاکستان پر ‘دوغلی’ افغان پالیسی کی باتیں حقائق کے منافی ہیں۔ معید یوسف کے بقول، اسلام آباد نے سرکاری سطح پر امریکہ کو بتایا تھا کہ انخلا کے بعد افغان افواج طالبان کے سامنے کھڑی نہیں رہ سکیں گی۔مشیر قومی سلامتی کے بقول، پاکستان نے ایک اتحادی کی حیثیت میں اپنا کردار مکمل ادا کیا ہے اور افغان جنگ میں پاکستان سے زیادہ نقصان کسی نے برداشت نہیں کیا جس میں 80 ہزار ہلاکتیں، 152 ارب ڈالر کا معاشی نقصان اور لاکھوں پاکستانیوں کی ملک میں ہی ہجرت جیسے مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔
ان کا کہنا تھا کہ افغانستان میں جنگ کا آغاز پاکستان نے نہیں کیا تھا لہٰذا دنیا کا ڈو مور کا مطالبہ مناسب نہیں ہے۔صحافیوں سے گفتگو میں ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان آج بھی امریکہ کے اتحادی کی حیثیت میں افغانستان میں اہم کردار ادا کرنا چاہتا ہے۔ لیکن وہ کردار جو زمینی حقائق اور خطے کے مفاد میں ہو گا۔ان کے بقول، دنیا کو افغانستان میں انسانی المیے کو جنم لینے سے روکنے میں کردار ادا کرنا چاہیے۔ اس ضمن میں پاکستان اپنے کردار سے غافل نہیں رہے گا۔پاکستان سمجھتا ہے کہ دنیا کو طالبان سے بات چیت کے ذریعے افغانستان کو استحکام کی طرف لے کر جانا چاہیے۔ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کو افغانستان سے دنیا بھر کے شہریوں کے انخلا کے علاوہ انسانی بحران، دہشت گردی سے بچنے، بارڈر مینجمنٹ، مہاجرین کے بحران سے نمٹنے اور علاقائی معیشت کے لیے تعلقات بنانا ضروری ہیں۔افغانستان کے خلاف پاکستانی سرزمین استعمال ہونے کے الزامات پر معید یوسف نے کہا کہ ان الزامات کا خاتمہ اسی صورت ہو گا جب دنیا پاکستان سے افغان مہاجرین کی باعزت واپسی یقینی بنائے گی۔ بصورتِ دیگر پاکستان میں بسنے والے لاکھوں افغان مہاجرین کی افغانستان میں سرگرمیوں کی ذمہ داری نہیں لی جاسکتی ہے۔اس موقع پر انہوں نے یہ واضح کیا کہ پاکستان مزید افغان مہاجرین کو قبول کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔معید یوسف کہتے ہیں کہ پاکستان افغانستان کی سرزمین کو دہشت گرد تنظیموں کے لیے استعمال ہوتا نہیں دیکھنا چاہتا اور ٹی ٹی پی کی افغان سرزمین پر سرگرمیوں سے اسلام آباد کو تشویش ہے۔البتہ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ پاکستان کی انسداد دہشت گردی کی صلاحیت ماضی کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے لہٰذا کسی قسم کے خطرے سے خوف زدہ نہیں ہیں اور نہ ہی یہ خطرہ ہے کہ پاکستان دوبارہ دہشت گردی کے دور میں چلا جائے گا۔
دنیا افغانستان پر پاکستان کے مو¿قف کو تسلیم کررہی ہے’دوسری جانب امریکہ میں مقیم تجزیہ نگار مسعود ابدالی کہتے ہیں کہ افغانستان کی نئی صورتِ حال میں پاکستان کے خدشات زمینی حقائق کے قریب دکھائی دیتے ہیں جنہیں دنیا سن رہی ہے۔انہوں نے کہا کہ امریکی صدر جو بائیڈن نے بھی افغان عوام کی امداد کی بات کی ہے۔ ان کے بقول جنیوا میں افغانستان کے لیے ایک ارب ڈالر کی امداد کا اکھٹا ہونا بھی دنیا کی جانب سے اس بات کا ادراک ہے کہ افغانستان کو تنہا نہیں چھوڑا جانا چاہیے۔مسعود ابدالی کہتے ہیں کہ اگرچہ طالبان کی حکومت کو باقاعدہ تسلیم نہیں کیا گیا ہے۔ لیکن دنیا کے کئی ممالک کے طالبان حکومت سے باقاعدہ رابطے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ‘امریکی صدر نے بھی یہ نہیں کہا کہ طالبان کو تسلیم نہیں کیا جائے گا بلکہ یہ کہا کہ یہ بعد کی بات ہے اور یورپی یونین تو یہ تک کہہ چکا ہے کہ طالبان ایک زمینی حقیقت ہیں جنہیں نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔