رواں ماہ کے اواخر میں یعنی 21 تا 23 اکتوبر منعقد ہونے والے فائنانشیل ایکشن ٹاسک فورس(ایف اے ٹی ایف) کے ایک مکمل اور ذیلی گروپوں کے اجلاس میں پاکستان خود کو گرے فہرست سے باہر نکلوانے کے لئے امریکہ میں لابیینگ کا سہارا لے رہا ہے اور اس کے اس نے واشنگٹن ڈی سی کے سب سے بڑے تاریخی رہائشی علاقہ کیپٹل ہل میں واقع لابئینگ کرنے والی ایک فرم کی خدمات حاصل کی ہیں۔سدا بہار دوست اور آہنی برادر چین ، سلطنت عثمانیہ کی احیاءکا حامی ترکی اور انتہاپسند بنتا جا رہا ملیشیا پاکستان کی پشت پر ہیں اس لیے اس کا کوئی امکان نہیں ہے کہ پاکستان کو ایف اے ٹی ایف کی بلیک لسٹ میں ڈال دیا جائے گا کیونکہ پاکستان کو بلیک لسٹ میں درج کرانے سے روکنے کے لیے 39 رکن ممالک میں صرف 3 کی ضرورت ہے۔
لیکن گرے لسٹ میں سے اپنا نام حذف کرانے کے لیے پاکستان کو39میں سے12رکن ممالک کی حمایت حاصل کرنا ہو گی اور اس کا تمام تر انحصار پیرس اجلاس میں اختیار کیے جانے والے امریکی نظریہ پر ہے۔
امریکہ اور پیرس مقیم سفارت کاروں کے مطابق پاکستان کی وزارت خارجہ نے ٹیکساس میں واقع لینڈن اسٹریٹجیز نام کی ایک لابئینگ فرم کی خدمات حاصل کی ہیں کہ وہ ٹرمپ، ایڈمنسٹریشن سے اس کی وکالت کرے۔بظاہر پاکستان ٹرمہپ ایڈمنسٹریشن تک جو بات پہنچوانا چاہتا ہے وہ ان موضوعات پر ہو سکتی ہیں۔ اول یہ کہ عالمی دہشت گرد گروپس طالبان، حقانی نیٹ ورک۔ القاعدہ اور داعش کی قیادت افغانستان میں مقیم ہے اور ان کو کافی فنڈ دستیاب ہے۔اس کا مطلب پاکستان کوئٹہ، بولان درہ اور پشاور ، درہ خیبر کے پار سرگرم طالبان شوریٰ اور حقانی نیٹ ورک سے تعلق منقطع کر چکا ہے اور افغانستان میں القاعدہ اور داعش یا نام نہاد دولت اسلامیہ سے پاکستان کا دور دور تک کوئی تعلق نہیں ہے۔
حقیقت تو یہ ہے کہ حقانی نیٹ ورک کا سرغنہ سراج الدین حقانی طالبان کا مسلح بازو اور مبلغ دین مولوی ہبت اللہ اخونزادہ کے ساتھ طالبان کا نائب امیر ہے ۔دوئم یہ کہ پاکستان یہ دعویٰ کرتا ہے کہ مردیک مقیم لشکر طیبہ غیر فعال ہو گئی ہے ، جماعت الدعویٰ اور فلاح انسانیت فاؤنڈیشن کے نشان زد زیادہ تر لیڈران کے خلاف دہشت گردی کی مالی اعا نت کےکیس درج ک کیے گئے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ 26/11حملوں کے اصل مجرم حافظ سعید نے کالعدم گروپ کی باگ ڈور بیٹا طلحہٰ کو سونپ دی ہے جو تشدد کو ہوا دے رہا لے اور جموں و کشمیر میں کنٹرول لائن کے پار رابطہ کے ہوئے ہے۔ تیسرے یہ کہ عمران خان حکومت اس امر کا دعویٰ کرتی ہے کہ بھاولپور میں سرگرم جیش محمد دہشت پسند گروپ افغان جنگ کو ماڈل بنا کر کارروائی کا قائل ہے۔ اس کے کلیدی لیڈران پاکستان میں نہیں ہیں ، یہ گروپ اپنے ہمدردوں کے توسط سے کارروائی کر رہا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ جیش محمد کے امیر مسعود اظہر کی صحت تشویشناک حد تک خراب ہے اور وہ بھاولپور میں بستر علالت پر ہیں۔ان کا بھائی مفتی رؤف اصغر افغانستان میں ڈورنڈ لائن کے پار اور پاکستان میں گروپ کے تربیتی کیمپ چلاتے ہیں۔جیش محمد کا کشمیر میں اصل گرگہ 2016پٹھان کوٹ حملہ کا ملزم قاسم جان ہے۔جسے مفتی اصغر سے ہدایات موصول ہوتی ہیں۔ جیش محمد صنعتکاروں کا ایک ایسا گھرانہ ہے جس کا اصل مال تجارت دہشت گردی ہے۔
چوتھے یہ کہ پاکستان دعویٰ کرتا ہے کہ اس نے چار نامزد افراد اور دو سینیئر لیڈروں کو مجر م قرار دے دیا ہے اور11نامزد افراد کے خلاف61معاملات میں اور8دیگر لیڈروں کے خلاف37معاملات دہشت گردی مالی اعانت کے مقدمات شروع کر دیے ہیں۔تاہم حقیقت یہ ہے کہ ایف اے ٹی ایف کی2019کی تفتیشی رپورٹ کے مطابق اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرار داد 1373 کے تحت، جسے 9/11حملوں کے بعد دہشت گردی کو مالی معاونت اور اس پر پابندی لگانے کے لیے منظور کیا گیا تھا، کالعدم قرار دی گئیں 66تنظیمیں اور تقریباً7600افراد ہیں ۔
لیکن ایک ممتاز اور اعلیٰ لابئینگ فرم کی خدمات حاصل کرنے کے باوجود پاکستان گرے لسٹ سے اپنا نام نکلوانے میں کامیاب نہیں ہو سکے گا کیونکہ 2019کی اقوام متحدہ تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق پاکستان کو ابھی بہت کچھ کرنا ہے اور ماضی کے ایف اے ٹی ایف کے ایکشن پلان کے27نکات کی تعمیل کرنی ہے۔