اسلام آباد ،(اے یوایس ) پاکستان میں پچھلے 30برسوں کے دوران توہین مذہب کے الزام میں 60سے زائد افراد کوہلاک کیا گیا ان میں سے بیشتر مشتعل ہجوم کے ہاتھوں قتل ہوتے ہیں اور درجنوں واقعا ت میں املاق اور عبادت گاہوں کو بھی بقصان پہنچایا جاتا ہے ۔ ان حملوں سے پہلے عام طور پر توہین مذہب کا الزام لگتا ہے تاہم یہ ضروری نہیں کہ ہمیشہ یہی الزام لگے۔ جن کیسز پر آج تک کچھ تحقیق یا کارروائی سامنے آئی ان سے یہ ضرور طے ہوا کہ یہ الزام عام طور پر جھوٹ پر مبنی ہوتے ہیں اور ان کی بنیاد ذاتی رنجش بنتی ہے۔ پاکستان میں مذہبی اقلیتوں کو نشانہ بنانا کوئی نئی بات نہیں ہے ان حملوں سے پہلے عام طور پر توہیں مذہب کا الزام لگایا جاتا ہے ۔ عام طور پر یہ الزامات جھوٹ پر مبنی ہے اور ان کی بنیاد ذاتی رنجش ہوتی ہے ۔
ذاتی لڑائی کا بدلہ لینے کے لئے توہین مذہب کا الزام لگایا جاتا ہے ۔ اقلیت میں اس وجہ سے خوف و حراس کی زندگی بسر کر رہے ہیں اور اپنے آپ کو غیر محفوظ سمجھتے ہیں ۔ ایسے کئی واقع سامنے آئے ہیں جس میں بے بنیاد الزاما ت پر اقلیتوں پر حملے کئے جاتے ہیں آج سے گیارہ سال پہلے رمشا مسیح کو پولیس کے حوالے کر دیا گیا مہر آبادی نامی کچی بستی میں رمشا مسیح کاغذ چن رہی تھیں جب ایک لڑکے نے ان سے کہا کہ وہ اپنا تھیلا ان کے حوالے کر دیں۔ رمشا مسیح نے ایسا ہی کیا۔ وہ پلاسٹک کا یہ تھیلا لے کر علاقے کے امام مسجد کے پاس پہنچا اور یہ تھیلا ان کو دے دیا۔کچھ دیر بعد امام مسجد نے وہاں پولیس کو بلایا اور انھیں ثبوت کے طور پر دین اسلام کی مقدس کتاب قرآن مجید کے صفحات پکڑائے اور بتایا کہ ’اس لڑکی نے قرآن کی توہین کی ہے۔ یہ ان کی مسلمانوں کے خلاف سازش ہے۔رمشا مسیح پر توہین مذہب کا الزام اور ان کی گرفتاری کی خبر جنگل میں آگ کی طرح پھیل گئی۔ ملک بھر میں انتشار کا خطرہ تھا۔ مہر آبادی کے مسلمانوں میں غصے کی لہر دوڑ گئی۔پاکستان میں پرتشدد ہجوم کے ہاتھوں شہریوں کی ہلاکت اورجلاو¿ گھیراو¿ کا سلسلہ بڑھتا جا رہا ہے۔
سزا اور جزا کا فیصلہ ہجوم اپنے ہاتھوں میں لیتا ہے اور نہتے شہری، جو عام طور پر معصوم ہوتے ہیں، ایسے ہجوم کے جبر کا شکار ہو کر اپنی جان گنوا بیٹھتے ہیں یا اپنے گھر اور املاک ایک جذباتی اور غصے سے بھرے ہجوم کے لوٹنے کے لیے چھوڑ کر بھاگ جاتے ہیں۔وہ ان واقعات کا ذمہ دار حکومت اور ریاستی اداروں کو ٹھہراتے ہیں ہوئے کہتے ہیں کہ ’کل میرے دفتر میں لوگ کہنے لگے کہ وہاں (جڑانوالہ) طالبان گھسے ہوں گے۔ میں چاہتا تھا کہ بات کروں مگر میں خاموش رہا۔ یہ غلط ہے۔ ہمارا تو جو نقصان ہونا تھا ہوگیا مگر اس ملک کی بدنامی ہوئی۔ اگر کسی مسجد میں بھی ایسا واقعہ ہو تو ہمیں بہت دکھ ہوتا ہے۔ کیونکہ عبادت گاہیں تو خدا کا گھر ہیں۔رمشا مسیح کی گرفتاری کے بعد گزشتہ بارہ برس میں حالات نہیں بدلے۔
متعدد ایسے واقعات ہوئے ہیں جب پرتشدد ہجوم نے سرکاری املاک، عبادت گاہوں اور عام شہریوں پر حملے کیے۔ ان میں سے زیادہ تر حملے اقلیتی برادری سے تعلق رکھنے والے افراد پر کیے گئے۔ بیشتر میں ہلاکتیں بھی ہوئیں جبکہ تمام حملوں میں سرکاری املاک اور عبادت گاہوں کو نقصان پہنچا۔گزشتہ ایک سال کے دوران ان واقعات میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔ صرف ایک سال میں ہی بیس مختلف واقعات میں اقلیتی برادری کے افراد کو نشانہ بنایا گیا ہے۔سنہ 2017 میں مشعال خان کو ان کی یونیورسٹی میں پرتشدد ہجوم نے قتل کر دیا۔ ان پر توہینِ مذہب کا الزام لگایا گیا۔