محمد ناصر اقبال خان
پاکستان دنیا کی واحد ایٹمی ریاست ہے جس کے پاس بہترین سرفروش محافظ جبکہ ڈاکٹرعبدالقدیرخان کی صورت میں قابل قدربلکہ قابل رشک” ایٹمی سائنسدان”تو ہیں لیکن قائداعظم محمدعلی جناحؒ ، لیاقت علی خان شہید ؒ،ذوالفقارعلی بھٹواورچوہدری ظہورالٰہی شہید کے بعد اس ملک میں کوئی زیرک اورسنجیدہ” سیاستدان” پیدانہیں ہوا۔دوسری طرف مالیاتی سیاست اورمالیاتی صحافت نے ریاست کوبانجھ بنادیاہے۔جس ملک میں ایک معمولی صنعتکار کی ناکامی ،بدنامی اورتاحیات نااہلی کے بعد ایک بلے باز کووزیراعظم بنادیاجائے وہاں” اداروں” کے “ارادوں” ،بصیرت اوربصارت پرانگلیاں اٹھناایک فطری امر ہے۔کپتان کی طرح ہماری اسٹیبلشمنٹ بھی” مردم شناس “،”نبض شناس” اور”فرض شناس” نہیں۔تعجب ہے اسٹیبلشمنٹ 22کروڑپاکستانیوں میں سے 22 ماہرین اورصالحین تلاش نہیں کرسکتی،اسے” شعبدہ باز” اور”بلے باز”ہی کیوں ملتے ہیں اورتین دہائیوں بعد اِن کا”کارِخاص” ایک “عام”بلکہ ناکام سیاستدان نکلتا ہے ۔نوازشریف ،عمران خان اورعثمان بزدار کی صورت میںاسٹیبلشمنٹ کا حسن انتخاب دیکھتا ہوں توبہت”مایوسی “ہوتی ہے ۔دس ہزار”بزدار” ایک “بردبار” کامتبادل نہیں ہوسکتے، کپتا ن نے عثمان بزدار کوکس قابلیت کی بنیادپروزیراعلیٰ پنجاب بنایا۔عمران خان کسی ادارے کوجوابدہ ہونہ ہولیکن اسے عوامی عدالت میں وضاحت دیناورنہ انتخابات میں اپنی ہٹ دھرمی کی قیمت چکاناہوگی ۔
مسلم لیگ (ن)اورپیپلزپارٹی جبکہ پی ٹی آئی اورایم کیوایم کے درمیان” نظریہ ضرورت “کے تحت ہونیوالے اتحادکا بوجھ سیاسی نظریات کاتابوت نابودکرنے کیلئے کافی ہے”۔ایم آرڈی،آئی جے آئی ،اے آرڈی اورایم ایم اے کی طرزپرپی ڈی ایم کاقیام بھی نظریہ ضرورت کاشاخسانہ ہے اوریقینا یہ بھی عنقریب قصہ پارینہ بن جائے گا۔ مسلم لیگ (ن)کامحورومرکز شریف خاندان جبکہ پیپلزپارٹی کی جان زرداری خاندان میںہے لہٰذاءیہ دونوں خاندان زیادہ دیراوردورتک ایک ساتھ نہیں چل سکتے۔نوازشریف پرآشوب دورمیں اپنے خاندان کی خواتین کے پیچھے چھپ جاتا ہے ،پرویزی آمریت کے سیاہ دورمیں نوازشریف ا پنی اہلیہ کلثوم نوازکے پیچھے چھپاتھا اوراب اپنی بیٹی مریم نواز کے پیچھا چھپ گیا ہے۔کلثوم نوازکومادرجمہوریت کہنا زیادتی ہے کیونکہ وہ اپنا شوہر بچانے کیلئے میدان میں اتریں اورشریف خاندان کی جلاوطنی کے بعد ان کا قومی سیاست میں کوئی کردارادانہیں تھا ۔ نوازشریف کو ڈکٹیٹر جنرل (ر)پرویزمشرف کاطیارہ مبینہ طورپرہائی جیک کرنے پر توسزاسنادی گئی تھی لیکن ماضی میں نوازشریف کو” چمک” کے بل پر”آئی جے آئی”ہائی جیک کر نے کی پاداش میں وزرات عظمیٰ سے نوازاگیا تھا ۔ آئی جے آئی بھی مختلف بلکہ متضاد نظریات والی پارٹیوں کااتحادتھاجومحض بینظیر بھٹو کامقابلہ کرنے اور راستہ روکنے کیلئے بنایاگیا تھا۔آج مریم نواز نے چمک کے بل پر” پی ڈی ایم” ہائی جیک کرلیا ہے،بیچارے بلاول زرداری کی قیمت کس نے وصول کرلی ہے یہ اسے بہت بعد میںمعلوم ہوگا ۔میں وثوق سے کہتا ہوں مریم نوازاوربلاول زرداری کے ہاتھوں میں وزرات عظمیٰ کی “ریکھا “نہیں ہے اورنہ متحدہ اپوزیشن کپتان کوہٹانے میں کامیاب ہوگی۔حکمران اتحاد کی طرح پی ڈی ایم کے پاس بھی ایجنڈا نہیں صرف ڈنڈا ہے، کپتان اوراس کے حامی اپناقتدار بچانے جبکہ پی ڈی ایم والے حکومت گرانے کیلئے دھونس جمارہے ہیں۔ حکمران جماعت کے نادان کپتان کی ” زبان” کے ہوتے ہوئے اسے کسی دشمن کی ضرورت نہیں،جوبیانات کسی صوبائی وزیرکے شایان شان نہیں وہ وزیراعظم دے رہا ہے۔ عمران خان کے بیانات مسلسل بیک فائرکررہے ہیں ،موصوف نے پچھلے دنوں جس” جیت” کادعویٰ کیا ہے وہ اِس طرز سیاست اوراِن ٹیم ممبرز کے ساتھ اُس کامقدر نہیں بن سکتی ۔عمران خان نے اپوزیشن قائدین کوللکارتے ہوئے کہا وہ اسے جانتے نہیں حالانکہ اس کی زبان نے اسے بے نقاب جبکہ وزرات عظمیٰ کے منصب کوبے آبرو کردیا ہے۔
پاکستان میں آج تک ہرقابل ذکر سیاسی اتحادصرف اقتدار کیلئے بنا،اہل سیاست کواقدار سے کوئی سروکار نہیں۔ہمارے 99فیصدسیاستدانوں کاطرزسیاست ریاست کیلئے زہرقاتل ہے،ہماری ریاست کے مقابلے میںاہل سیاست زیادہ طاقتور ،بااثراور ثروت مند ہیں۔مٹھی بھر” کرداروں” نے ریاستی “اداروں” کیخلاف علم بغاوت بلندکردیاہے،یہ وہ “کردار”ہیں جوماضی میں ایک دوسرے کو”غدار”اورسکیورٹی رسک کہاکرتے تھے۔سیاستدانوں کے اپنے بیانات کی روشنی میں ہرسیاستدان بدزبان اوربدعنوان ہے۔ایک بات طے ہے یہ لوگ ماضی میں سچائی بیان کرتے تھے یاپھرآج جھوٹ بول رہے ہیں لہٰذاءان پراعتماد نہیں کیا جاسکتا۔ صرف سیاستدان طبقہ پاکستان کیلئے بوجھ نہیں بلکہ اس کا ناکام اوربدنام انتخابی نظام بھی اس کیلئے نحوست بناہوا ہے،اس کی تبدیلی تک پاکستانیوںکی حالت زار نہیں بدل سکتی۔اس نظام نے پاکستانیوںکو مختلف طبقات میں تقسیم کردیا ،مٹھی بھرپوش طبقہ سفیدپوش طبقات پرغالب ہے ۔ وہ سیاستدان جو ایک دوسرے کے نزدیک بدعنوان اورچور ہیں انہیں بار بار منتخب کرلیا جاتاہے لہٰذاءکوئی باشعورشہری مادروطن میں دوررس انتخابی اصلاحات اوربے رحم احتساب کی ضرورت سے انکار نہیں کرسکتا۔اگراہل سیاست راہ راست پرنہ آئے توہماری ریاست خدانخواستہ ٹیک آف نہیں کرے گی۔جونظام چوروں کو زندانوں میں قیدکرنے کی بجائے ان کی ایوانوںمیں رسائی کاراستہ ہموارکرے وہ عوام پربوجھ کے سواکچھ نہیں ہے۔ہمارا انتخابی نظام کئی اسیر امیدواروںکوزندانوں سے ایوانوں میں پہنچاتارہا۔اس گیم میں ووٹر ز سے سیاسی شعور کی امید رکھنا درست نہیں کیونکہ وہ جانے انجانے میں اپنابیش قیمت ووٹ محض” نالی” اور”تھالی “کے نام پرنیلام کررہے ہیں،لہٰذاءووٹ کوعزت دوکا حامی گروہ درحقیقت ووٹرکی آنکھوں میں دھول جھونک رہاہے۔جومٹھی بھرلوگ ووٹ کو”عزت “دوکاشورمچارہے ہیں انہوں نے ووٹر کی “عزت نفس ” کوباربار اپنے پیروں تلے روندا ہے ۔ انتخابی نظام کا ریموٹ کنٹرول اشرافیہ کے پاس ہے اوریہ عہدحاضر میں بھی عوام کوغلام کے روپ میں دیکھتے ہیں۔سات دہائیوں کے دوران پاکستان میں بار بارآمریت اورجمہوریت نے اپنااپنا شغل لگایا لیکن ایک دن کیلئے بھی عوام کی حاکمیت کادور نہیں آیا۔ نام نہاد جمہوریت نے جمہورکواحساس محرومی اورغلامی کے سوا کچھ نہیں دیا۔جمہوریت ہماری ریاست کیلئے دوا نہیں بلکہ درد ہے لہٰذاءہمیں اللہ رب العزت کی اطاعت اورعافیت کیلئے نظام خلافت کی طرف پلٹنا ہوگا۔
ریاست کی سا لمیت کیلئے سیاست کوسرمایہ داروں اورصنعتکاروں کے چنگل سے چھڑانا ہوگا،جس خاندان کاایک بھی فردصنعت وتجارت سے وابستہ ہوا سے منتخب ایوانوں سے بہت دوررکھنا ہوگا کیونکہ سرمایہ دارریاست نہیں صرف اپنے نجی کاروبار کے ساتھ وفادارہوتا ہے۔اگرقومی سیاست کومنفعت بخش تجارت نہ بنادیاجاتا توآج ہرسطح کے انتخابات میں دھونس دھاندلی کا”رواج” اورایوانوں میںچوروں کا”راج” نہ ہوتا۔ووٹر نے آج تک اپنے ووٹ کی چوری کاشورمچایا نہ ووٹ کوعزت دوکامطالبہ کیا ،یہ تووہ امیدوار یعنی سیاستدان ہیں جوشکست فاش کے بعد انتخابی نتائج کومسترد کرتے ہوئے دھاندلی کی رَٹ لگاتے اورعوام کی ہمدردیاں بٹورنے کیلئے مگرمچھ کے آنسوبہاتے ہیں۔پاکستان میںاحتساب کے بغیربار بار انتخاب کاانعقاد ایک ایسا “سراب” ہے جس نے ا ب تک ریاست ،جمہوریت اورمعیشت کو”سیراب” نہیں ہونے دیا ۔میرے نزدیک نیب بھی ایک سفیدہاتھی اورہرطاقتورچورکاساتھی ہے،کئی دہائیوں سے نیب کے ہنٹر صرف معمولی چوروں پربرس رہے ہیں۔پاکستان کے بچے بچے کوقومی لٹیروں کے نام اورکام ازبر ہیں لیکن نیب ایک مخصوص ایجنڈے کے تحت ”کیس نہیں فیس”دیکھتا ہے ۔نیب حکام یادرکھیں شاہراہوں پربینرز لگانے سے کرپشن نہیں رک سکتی ،”کرپشن “صرف پیشہ ورانہ انداز میں” آپریشن “سے ختم ہوگی۔
پاکستان میں نظام کی تبدیلی ناگزیر ہے لیکن سات دہائیوں کے بدترین بگاڑ ” اِنتقام” نہیں بہتر “اِنتظام “سے درست ہوں گے،تاہم اگرپاکستان میں آئندہ بھی” منتظم “کے روپ میں” منتقم” مزاج حکمران منتخب ہوتے رہے توپھرنالی ، گالی اورگولی کی سیاست کسی روگ کی طرح ریاست کی رگ رگ میں سرائیت کرجائے گی۔ہمارے زیادہ ترحکمران منتقم مزاج تھے ،تاہم ان کا طریقہ انتقام ایک دوسرے سے مختلف تھا۔بدعنوان اوربدزبان دونوں مادروطن کیلئے سرطان ہیں۔حکمرانوں کی بدنیتی ،بدعہدی اوربدانتظامی نے پاکستان کومقروض اور معاشی طورپرمفلوج کردیاہے۔ہمارے بدنیت اورسیاسی تربیت سے محروم سیاستدانوں کے ہاتھوں فرسودہ نظام نہیں بدلے گا کیونکہ وہ ایک دوسرے سے” بدلے”کیلئے اقتدارمیں آتے ہیں۔جس وقت تک ہماری سیاسی اشرافیہ اپنا مائنڈسیٹ نہیں بدلے گی اس وقت تک تھانہ کلچر سمیت کچھ نہیں بدلے گا۔ نوازشریف اورآصف زرداری اپنے اپنے ادوارمیںایک دوسرے کیخلاف مقدمات بناتے رہے اس امر سے کوئی انکار نہیں کرسکتا لیکن تبدیلی سرکار بھی اقدامات کی بجائے محض رسمی بیانات تک محدود ہے۔عمران خان جس طرح بلے بازی کے میدان میں آل راﺅنڈر تھا اس طرح موصوف شعبدہ بازی کے ایوان میں بھی آل راﺅنڈر ہے ، کپتان نے وزارت عظمیٰ کاحلف اٹھایا لیکن وہ ایک تنخواہ میں کئی کام کررہاہے ،وہ تبدیلی سرکارکا وزیراطلاعات بھی خود ہے ۔ عمران خان کے پاس پاکستان کاسب سے بڑاآئینی منصب ہے لیکن وہ خود ابھی تک “بڑا “نہیںہوا ۔وہ کبھی بلاول کی نقل اتارتاہے توکبھی مریم نواز پرطعنہ زنی کرتاہے ،پچھلے دنوں موصوف نے اسحق ڈار کاتمسخر اڑایا۔کپتان نے تدبر کی بجائے تکبر کادامن تھام لیا یعنی اس نے اپنے ہاتھوں سے اپنی سیاست کیلئے قبرتیارکرلی ہے ۔شیطان بظاہرہماری نگاہوں سے اوجھل ہے لیکن ہم جابجا شیطانیت اورحیوانیت کے مظاہرے دیکھتے ہیں ۔فرعون غرقاب ہوگیا لیکن فرعونیت نے انسانوں اور انسانیت کاپیچھا نہیں چھوڑا۔ مکابرانڈ آمر نے پاکستان سے راہ فراراختیار کرلی لیکن وہ اپنے بعد اقتدارمیں آنیوالے حکمرانوں کیلئے آمریت کے منفی اثرات چھوڑگیا،معلوم نہیںآمرانہ رویوں والے آمروں کاانجام کیوں بھول جاتے ہیں ۔
ای میل:kaonain7@gmail.com