Pakistan Army cannot undertake commercial activities outside their respective establishments: Islamabad HCتصویر سوشل میڈیا

اسلام آباد: (اے یو ایس )اسلام آباد ہائی کورٹ نے اسلام آباد کی مارگلہ ہلز میں نیشنل پارک تجاوزات، نیول گالف کورس اور پاکستان آرمی کی آٹھ ہزار ایکڑ زمین کی ملکیت غیر قانونی قرار دینے سے متعلق تفصیلی فیصلہ جاری کر دیا ہے۔ عدالت نے فیصلے میں کہا ہے کہ افواجِ پاکستان کو اپنے دائرہ کار سے باہر کسی کاروباری سرگرمی میں حصہ لینے کا اختیار نہیں ہے۔بدھ کو اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے 105 صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ پاکستان فوج کو کسی اسٹیٹ لینڈ کی ملکیت کا کوئی دعویٰ کرنے کا اختیار نہیں ہے۔ ریاست کے اندر ریاست بنانے کا رجحان پروان چڑھ رہا ہے جو ادارے ان خلاف ورزیوں کو روکنے کے ذمہ دار ہیں وہ بے بس یا غافل نظر آتے ہیں۔تفصیلی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ مسلح افواج کی جانب سے قانون کی خلاف ورزی ان کے آئینی حلف کی خلاف ورزی ہے۔رواں سال 11 جنوری کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے وفاقی دارالحکومت کی انتظامیہ کو مارگلہ کی پہاڑیوں پر قائم مونال ریسٹورنٹ کو سیل کرنے اور نیوی گولف کورس کو تحویل میں لینے کا حکم دیا تھا۔ مونال ریسٹورنٹ کے حوالے سے سپریم کورٹ نے حکم امتناعی جاری کیا ہے جس کے بعد یہ ریسٹورنٹ کام کررہا ہے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے ملٹری ڈائریکٹوریٹ فارمز کا نیشنل پارک کی آٹھ ہزار ایکڑ اراضی پر دعویٰ بھی غیر قانونی قرار دیا تھا اور کہا تھا کہ یہ اراضی نیشنل پارک کا حصہ ہے جسے وفاقی حکومت کی ملکیت سمجھا جائے۔اسلام آباد ہائی کورٹ میں نیشنل پارک کے حوالے سے متفرق درخواستیں دائر کی گئی تھیں جنہیں ایک جگہ اکٹھا کر کے مارگلہ ہلز تجاوزات کیس کا نام دیا گیا تھا۔اس میں ایک درخواست مونال ریسٹورنٹ کی طرف سے بھی دائر کی گئی تھی جس میں ان کا کہنا تھا کہ ریسٹورنٹ کی سی ڈی اے کے ساتھ لیز ختم ہونے کے بعد ملٹری ڈائریکٹوریٹ آف ویٹرنری فارمز نے اس زمین کو اپنی ملکیت ظاہر کیا تھا۔ مونال ریسٹورنٹ اپنی لیز جاری رکھنا چاہتا تھا جس کے لیے انہوں نے عدالت میں درخواست دائر کی۔اسلام آباد ہائی کورٹ کو ایک خط جھگیوں میں مقیم افراد کی طرف سے بھی لکھا گیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ یہاں بیشتر غیر قانونی آبادیوں کو تحفظ دیا جاتا ہے البتہ ہمارے گھروں کو گرا دیا جاتا ہے۔ اس پر عدالت نے خط کو درخواست میں تبدیل کرتے ہوئے اسی کیس میں شامل کردیا تھا۔فوج کی جانب سے وزارت دفاع کا مو قف تھا کہ انہیں 1910میں یہ زمین گھوڑوں کے چارے اور گھاس کے لیے الاٹ کی گئی تھی۔عدالت نے اس مو قف کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ 1962 کے آرڈیننس اور اسلام آباد کے دارالحکومت بننے کے بعد اس علاقے کی تمام زمین اسلام آباد کی انتظامیہ کو دی جا چکی ہے لہٰذا آٹھ ہزار ایکڑ زمین فوج کو نہیں دی جا سکتی۔اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس جسٹس اطہرمن اللہ کی طرف سے تحریر کردہ اس تفصیلی فیصلہ میں کہا گیا ہے کہ قانون میں متعین کردہ حدود سے باہر جی ایچ کیو ، آر وی ایف ڈائریکٹوریٹ زمین کی ملکیت کا دعویٰ نہیں کر سکتا۔

عدالت کا کہنا تھا کہ ملٹری ڈائریکٹوریٹ کے پاس کمرشل سرگرمیوں میں شامل ہونے یا کسی ریسٹورنٹ سے کرایہ وصول کرنے کا اختیار نہیں ہے۔فیصلے میں کہا گیا ہے کہ پاکستانی فوج کے بعض افسران نے قانون توڑا ، اتھارٹی کا غلط استعمال کیا جس سے قومی خزانے کو نقصان پہنچا کوئی قانون سے بالاتر نہیں کسی کو قانون کی خلاف ورزی کا لائسنس نہیں دیا جا سکتا۔جسٹس اطہر من اللہ نے لکھا کہ نیوی حکام نے ریاستی زمین پر تجاوزات کرکے تادیبی کارروائی کے لیے خود کو پیش کردیا ہے، ریاستی اداروں کا اختیار کا غلط استعمال خلاف قانون بنیادی آئینی حقوق کی سنگین کی خلاف ورزی ہے۔عدالت نے نیوی گولف کورس کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے سی ڈی اے اور وائلڈ لائف مینجمنٹ کو قبضہ لینے کا حکم دیا ہے۔عدالتی حکم میں کہا گیا ہے کہ پاک بحریہ اور پاک فوج نے قانون اپنے ہاتھ میں لے کر نافذ شدہ قوانین کی خلاف ورزی کی۔ یہ قانون کی حکمرانی کو کمزور کرنے اور اشرافیہ کی گرفت کا ایک مثالی کیس تھا۔عدالت نے کہا کہ ریاست کا فرض ہے کہ وہ مارگلہ ہلز کو پہنچنے والے نقصان کے ازالہ کے لیے اقدامات کرے تاکہ اسے مزید تباہی سے بچایا جا سکے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *